تذکرے اور صحبتیں

تذکرۂ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم

1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یار غار اور وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا ہے اتنا کسی کی دولت سے حاصل نہیں ہوا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خوف و رجا کا یہ عالم تھا کہ مطرب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر پکارنے والا یہ پکارے کہ جنت میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہی ہوں گا اور اگر کوئی یہ صدا بلند کرے کہ دوزخ میں ایک ہی شخص جائے گا تو مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ میں ہی نہ ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے آدم کی اولاد! اُٹھو اور اس آگ کو بجھا ڈالو جسے تم نے خود جلا رکھا ہے۔‘‘

آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی آپ نے کوئی چیز کھائی اور بعد میں شبہ ہوا تو اسی وقت قے کرکے اگل دیتے اور فرماتے خدا کی قسم اگر اس مشتبہ کھائی ہوئی چیز کے ساتھ میری روح بھی نکل جائے تو میں اسے خارج کرنے میں تامل نہ کروں گا، کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان وحی ترجمان سے یہ سنا ہے کہ جس جسم کو حرام کی غذا ملی ہو وہ آگ کے بہت قریب ہوگا۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ کاش میں سبزہ ہوتا اور مجھے چرند پرند کھاتے اور خوف عذاب اور وحشت یوم حساب کا سوچ کر خیال کرتا ہوں کاش مجھے پیدا ہی نہ کیا جاتا۔

آپ یہ دعا فرماتے تھے اے اللہ! میری آخری عمر میں برکتیں اور بھلائی عطا فرما اور نیک اعمال پر میرا خاتمہ ہو، اور تیری ملاقات کا دن میری زندگی کا بہترین دن ہو۔

خشیت الٰہی کا عالم یہ تھا کہ ایک دن آپ ایک باغ میں گئے جہاں ایک درخت تھا اس کے سائے میں ایک چڑیا دیکھ کر ایک ٹھنڈی سانس کھینچی اور فرمایا چڑیا تو بڑی خوش نصیب ہے، درختوں کے پھل کھاتی ہے، درختوں کے سائے میں رہتی ہے اور حساب و کتاب سے مبرا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خشوع و خضوع کی حالت یہ تھی کہ جب آپ نماز پڑھتے تو لکڑی کی طرح کھڑے رہتے اور دن کے اوقات میں خاموشی قائم رکھنے کے لئے کئی بار منہ میں کنکریاں رکھ لیتے۔ ابوبکر واسطی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ تصوف پر مبنی پہلا بیان امت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے ادا ہوا جس سے صوفیاء نے بڑے لطیف مطالب اخذ کئے اور عقلاء الجھ رہے ہیں۔

وہ بیان یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کیا کہ اے ابوبکر تو نے اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ‘‘

1۔ ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب المناقب، باب فی مناقب أبی بکر، 5 : 614، رقم : 3675
2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب الرخصۃ فی ذلک، 2 : 129، رقم : 1678

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو وراثت میں آپ نے کوئی درہم و دینار نہ چھوڑا حتی کہ جو مال آپ نے بیت المال سے لیا تھا وہ سب بیت المال میں واپس لوٹا دیا۔

2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب صحابہ میں سے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں آپ کے تمام افعال مقبول ہیں، اس حد تک کہ جب ابتداء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا اے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان والے آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے پر آپ کو مبارک دیتے ہیں۔

آپ نے فرمایا بدوں کی ہم نشینی سے گوشہ نشینی میں راحت و سکون ہے عزلت یعنی گوشہ نشینی دو طریقے سے ہوتی ہے، ایک خلقت سے کنارہ کشی کرنے سے دوسرے ان سے تعلق قطع کرنے سے یعنی ’’اعراض عن الخلق‘‘ خلقت سے کنارہ کشی کی صورت یہ ہے کہ بندہ ان سے منہ موڑ کر خلوت میں بیٹھ جائے اور ظاہری طور پر ہم نشینوں کی صحبت سے بیزار ہو جائے اور اپنے اعمال کے عیب دیکھنے سے خود میں آرام ملے اور لوگوں کے ملنے جلنے سے خود کو بچائے اور اپنی برائیوں سے ان کو محفوظ رکھے مگر خلقت سے تعلق قطع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دل کی یہ کیفیت ہو کہ وہ ظاہر سے کوئی علاقہ نہ رکھے۔ جب کسی کا دل خلقت سے منقطع ہوگیا تو کسی مخلوق کا یہ خدشہ و اندیشہ نہیں رہتا کہ ان کا خیال اس کے دل پر غلبہ پا سکے۔ اس وقت یہ شخص اگرچہ خلقت کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں جدا ہوتا ہے۔ اور اس کے ارادے ان سے منفرد ہوتے ہیں یہ درجہ بہت بلند اور بعید از خطرات ہے، یہی سیدھی روش ہے۔ اور اس مقام پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فائز تھے۔ آپ بظاہر خلقت کے درمیان حکومت و خلافت پر متمکن تھے۔ لیکن ان کا دل عزلت و تنہائی سے راحت پاتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شیطان عمر کے سائے سے دور بھاگتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کیا اس نے وہ کچھ کیا جو اللہ چاہتا تھا۔ اور اگر قیامت نہ ہوتی تو تم وہ کچھ دیکھتے جو تمہارے گمان سے بالکل مختلف ہوتا۔ اس کے بعد آپ نے ایک کچی اینٹ اٹھا کر فرمایا کاش میں یہی اینٹ ہوتا کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا۔

صوفیاء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات کو اپنے لئے نمونہ اور نشان راہ سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ وہ پیوند لگے کھردرے کپڑے پہنتے، ترک شہوات فرماتے، مشکوک چیزوں سے اجتناب فرماتے اور ہر معاملے میں وقار اور شرافت کا اظہار فرماتے۔ حق واضح ثابت ہونے کے بعد لوگوں کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ باطل کو مٹانے والے تھے۔ حقوق کے اعتبار سے اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ یکساں سلوک فرماتے۔ طاعات کو اختیار کرنے میں شدّت برتتے اور ممنوعہ چیزوں سے اجتناب میں سختی سے کار بند رہتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے چار چیزوں میں عبادت کو موجود پایا ہے۔

  1. اللہ کے فرائض کی ادائیگی
  2. اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے اجتناب
  3. فقط اللہ سے ثواب پانے کی خاطر امر بالمعروف
  4. اللہ کے غضب سے بچنے کے لئے نہی عن المنکر

حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک روز سورہ اذا الشمس کورت پڑھ رہے تھے اور جب واذا الصحف نشرت اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے پر پہنچے تو بیہوش ہو کر گر پڑے اور بہت دیر تک زمین پر تڑپتے رہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ جب قیام لیل کی کوئی آیت آتی تو غش کھا کر گر جاتے یہاں تک کہ کئی دن تک مریض کی طرح ان کی عیادت کی جاتی۔ وہ اپنے ایام خلافت میں نہ رات کو سوتے اور نہ دن کو بلکہ کبھی بیٹھے بیٹھے غنودگی سی ہو جاتی تھی اور فرماتے تھے کہ اگر میں رات کو سوتا ہوں تو اپنے آپ کو کھوتا ہوں اور اگر دن کو سوتا ہوں تو رعیت کو کھوتا ہوں اور مجھے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ ان کے چہرہ مبارک پر آنسوؤں کے جاری رہنے سے دو سیاہ خط بن گئے تھے۔

امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حلال کے نو حصے چھوڑتے ہیں اس ڈر سے کہ کہیں حرام کے ایک حصہ میں گرفتار نہ ہو جائیں۔

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے : ایک رات آپ عوام کی خدمت کے لیے رات کو نکلے تو آپ نے ایک گھر میں دیکھا کہ چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھی خاتون اُون کاتتے ہوئے ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہی ہے:

علی محمد صلاۃ الأبرار
صلی علیہ الطیبون الأخیار
قد کنتَ قواماً بکا بالأسحار
یا لیت شعري والمنایا أطوار
ہل تجمعنی وحبیبی الدار

1۔ قاضی عیاض، الشفاء، 2 : 21
2۔ ابن مبارک، الزہد، 1 : 363
3۔ ملا علی قاری، شرح الشفاء، 2 : 40

(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے تمام ماننے والوں کی طرف سے سلام ہو اور تمام متقین کی طرف سے بھی۔ آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور سحری کے وقت آنسو بہانے والے تھے۔ ہائے افسوس! اسبابِ موت متعدد ہیں، کاش مجھے یقین ہوجائے کہ روزِ قیامت مجھے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب نصیب ہوسکے گا۔)

یہ اشعار سن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بے اختیار اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد آگئی اور وہ زار و قطار رو پڑے۔ اہل سیر آگے لکھتے ہیں :

طرق علیہا الباب، فقالت : من ہذا؟ فقال : عمر بن الخطاب، فقالت : ما لي ولعمر في ہذہ الساعۃ؟ فقال : افتحی، یرحمک اللہ فلا بأس علیک، ففتحت لہ، فدخل علیہا، وقال : ردی الکلمات التي قلتیہا آنفا، فردتہا، فقال : ادخلینی معکما وقولي وعمر فاغفرلہ یا غفار۔

خفاجی، نسیم الریاض، 3 : 355

’’انہوں نے دروازے پر دستک دی۔ خاتون نے پوچھا : کون؟ آپ نے کہا : عمر بن الخطاب۔ خاتون نے کہا : رات کے ان اوقات میں عمر کو یہاں کیا کام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، تو دروازہ کھول تجھے کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ اس نے دروازہ کھولا، آپ اندر داخل ہوگئے اور کہا کہ جو اشعار تو ابھی پڑھ رہی تھی انہیں دوبارہ پڑھ۔ اس نے جب دوبارہ اشعار پڑھے تو آپ کہنے لگے کہ اس مسعود و مبارک اجتماع میں مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلے اور یہ کہہ کہ ہم دونوں کو آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو اور اے معاف کرنے والے عمر کو معاف کر دے۔‘‘

بقول قاضی سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کے بعد چند دن تک صاحبِ فراش رہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔

درد مندِ عشق را دارو بجز دیدار نیست

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک مشک پانی سے بھری ہوئی اپنی پشت پر رکھ کر کسی غریب مسلمان کے دروازے پر آواز دی کہ دروازہ کھولو، بہشتی پانی بھرے گا، لوگوں نے عرض کیا یا امیر المومنین یہ آپ کیا کر رہے ہیں، آپ خلیفۃ المسلمین، آپ کو سقہ بننے کی کیا ضرورت پیش آئی، ارشاد فرمایا :

میرے نفس میں خیال گزرا کہ عمر کے پاس قیصر و کسریٰ کے وفود آتے ہیں، پس میں نے اپنے نفس کا یہ علاج کیا ہے تاکہ نفس کا مزاج درست ہو جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب خنجر لگا اور شہادت کا وقت قریب آ پہنچا تو اتنے میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور رو کر عرض کرنے لگے واہ عمراہ وا حبیباہ و اخاہ تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، اے صہیب! میری تعریف مت کر اگر حق تعالیٰ مجھے کسی عمل پر اجر نہ دیں، صرف برابر برابر چھوڑ دیں تو بھی اس کو غنیمت سمجھوں گا۔

3۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

آپ امت کے خلیفہ سوم تھے۔ ایک دفعہ اپنے باغ میں لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر لا رہے تھے، جبکہ ان کے کئی غلام تھے، کسی نے عرض کیا، آپ نے یہ گٹھا کسی غلام سے کیوں نہ اٹھوا لیا؟ آپ نے فرمایا : میں یہ اپنے کسی غلام سے اٹھوا سکتا تھا مگر میری مرضی تھی کہ اپنے نفس کو آزماؤں کہ وہ اسے عاجزی سے قبول کرتا اور پسند کرتا ہے یا نہیں، یہاں یہ بات واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ریاضت نفس کو اپنا رہے تھے کہ کہیں وہ مال و منال سے مطمئن نہ ہو جائے۔ آپ ہر رکعت کے قیام میں سبع طوال پڑھتے تھے اور رات کو بیدار رہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بھلائی کو چار چیزوں میں جمع پایا :

  1. نوافل کے ذریعے خدا سے محبت کے اظہار میں
  2. احکام خداوندی پر صبر میں
  3. خدا کی مقرر کردہ تقدیر پر راضی ہو رہنے میں
  4. اللہ کی نگاہ سے حیا کرنے میں

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے۔ رات کو قیام کرتے، اور تنہائی میں سوتے اور اکثر ایک رکعت میں قرآن ختم کیا کرتے، لوگوں کو خطبہ سناتے اور لوگوں کو اچھا طعام کھلاتے، اور خود گھر میں جاکر سرکہ اور تیل کھاتے اور اپنے غلام کو ہمراہ شامل کرتے۔ اس کو عیب نہ جانتے اور جب کسی قبر پر سے گزرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک بھیگ جاتی۔

4۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ

طریقت کے تمام سلاسل حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے ملتے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن سے تربیت یافتہ صحابی تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایمان قلب میں ایک سفید نقطے کی مانند ہے جونہی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے قلب بھی سفید ہو جاتا ہے اور منافقت دل میں سیاہ نقطے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور جوں جوں دل میں گھر کرتی جاتی ہے، یہ سیاہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب منافقت مکمل طور سے دل پر چھا جاتی ہے تو سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ سب سے بڑھ کر بے عیب کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس نے عقل کو اپنا امیر، موعظت کو اپنی زمام، صبر کو اپنا قائد، تقوی کو اپنا نگہبان، خوف خدا کو اپنا جلیس اور موت و مصیبت کو اپنا دوست بنایا۔

آپ کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے خزانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا : اے سونا چاندی! جا میرے سوا کسی اور کو دھوکہ دے۔

کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رنگ نماز کا وقت داخل ہوتے ہی متغیر ہو جاتا اور کانپنے لگتے، ایسی حالت میں جب آپ سے اس کا سبب پوچھا جاتا تو فرماتے اس امانت کو لوٹانے کا وقت آن پہنچا ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ ’’بے شک ہم نے (اِطاعت کی) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔‘‘ آپ نے فرمایا بھلائی چار چیزوں میں ہے، گویائی، خاموشی، بینائی اور حرکت، ہر ایسی گفتگو جو ذکر خدا سے خالی ہو لغو ہے، ہر وہ خاموشی جو فکر کے لئے اختیار نہ کی گئی ہو سہو ہے، ہر وہ نگاہ جس میں عبرت نہ ہو غفلت ہے اور ہر وہ حرکت جو اللہ کی عبادت کے لئے نہ ہو سستی اور کمزوری ہے۔ کسی سائل نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا سب سے اچھا عمل کون سا ہے، فرمایا غناء القلب باللہ تعالی (اللہ تعالیٰ کے ساتھ دل کو تونگر بنانا) آپ فرماتے ہیں کہ صالحین کی علامات یہ ہیں کہ ان کی رنگت زرد ہو، آنکھیں چندھیا گئی ہوں اور ان کے ہونٹ پژمردہ ہوں، یعنی بکثرت جاگنے، گریہ کرنے اور بھوکا رہنے کے باعث۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء راشدین کے مبارک رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بحرمۃ الخلفاء الراشدین المھدیین رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved