الفیوضات المحمدیۃ

پیش لفظ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دورِ حاضر کی عظیم علمی، فکری، تعلیمی، تحقیقی، فلاحی، اجتہادی، تجدیدی، روحانی اور اِحیائی تحریک، تحریک منہاج القرآن اپنے آغاز کے دن سے ہی امتِ مسلمہ کی ہمہ گیر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ اس کے بانی قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی قدیم و جدید علوم سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم اسلامی مفکر اور روحانی مصلح بھی ہیں، وہ نہ صرف وابستگانِ تحریک کی رہنمائی کر رہے ہیں بلکہ جملہ مسلمانانِ عالم کے لئے خیر خواہی، نفع بخشی اور فیض رسانی کے عمل مسنون میں رات دن مصروف رہتے ہیں۔

اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر رفقاء و وابستگان تحریک اور عامۃ المسلمین کے لئے یہ گراں قدر کتاب ’’الفیوضات المحمدیۃ ﷺ ‘‘ مرتب کرکے ان کی دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے۔ اس کتاب میں نفوسِ سبعہ کے تزکیہ و ترقی، روحانی ملکات اور نسبتوں کی پہچان، تحقق اور فروغ بالخصوص نسبتِ محمدی ﷺ کے حصول اور زیارتِ نبوی ﷺ کے لئے خاص وظائف و اذکار کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے شفایابی اور سحر و شر جنات سے نجات کے عام فہم قرآنی وظائف بھی شامل ہیں جو محض اللہ رب العزت اور اس کے محبوب حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے ڈاکٹر صاحب پر خصوصی عطا ہے۔

یہ چیزیں روحانی وظائف کی تاریخ میں اگرچہ نئی نہیں لیکن اس ترتیب اور نظم کے ساتھ پہلی بار منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ان وظائف میں خاص بات یہ ہے کہ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے عملیات کی بجائے فیوضات کا انداز اپنایا ہے یہ تمام وظائف محض قرآنی آیات، سورتوں اسماء الٰہیہ، درود شریف کے مختلف صیغوں اور احادیث نبوی ﷺ پر مشتمل ہیں۔

اس سلسلے میں خود قائد محترم کے اپنے کیا معمولات ہیں؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے دوران ترتیب ان سے ذاتی نوعیت کے بعض سوالات کئے اور انہوں نے نہایت شفقت فرماتے ہوئے بڑے ایمان افروز جوابات دیئے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ایسے تین سوالات اور ان کے جوابات ذیل میں دیئے جا رہے ہیں:

(1) ’’الفیوضات المحمدیۃ ﷺ ‘‘ کے حصہ دوم و حصہ سوم کے وظائف کی ترتیب کے دوران ہم نے قبلہ قائد محترم سے پوچھا کہ ایسے دنیوی معاملات اور پریشانیوں میں ان وظائف میں سے کچھ آپ کا معمول بھی ہے؟ انہوں نے اس موقع پر بڑی ایمان افروز بات کی جو اس طبقہ کے افراد کا شیوہ ہے۔ فرمایا:

’’میرا ہر عمل لِلّٰهِ، بِاللہ، فِی اللہ، عَلَی اللہ، إِلَی اللہ اور مَعَ اللہ ہے۔‘‘

(یعنی میرا ہر عمل فقط اللہ کے لئے ہے، اللہ کی مدد و اعانت کے ساتھ ہے، اللہ کی رضا اور اس کے دھیان میں ہے، اللہ کے توکل پر ہے، اللہ کی طرف تفویض اور سپردگی میں ہے اور اللہ ہی کے تصوّرِ معیّت میں ہے)۔

اس بات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فرمایا:

’’اس سے مراد ان الفاظ کا ورد کرنا نہیں بلکہ یہ باطنی عمل اور حال ہے۔‘‘

جملہ معاملات اور حلِ مشکلات کے لئے یہی میرا و ظیفہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے لئے کوئی وظیفہ نہ کرنا ہی میرا وظیفہ ہے۔‘‘

(2) ہم نے پھر سوال کیا کہ اگر آپ کا اپنا یہ معمول ہے تو آپ نے ان وظائف کو کتاب کا حصہ کیوں بنایا؟اس پر انہوں نے فرمایا:

’’ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے امت کے لئے وظائف عطا فرمائے اور بعد میں عرفاء و صلحاء نے بھی عامۃ الناس کے لئے تجویز فرمائے، سو اِسی سنت کی بنا پر میں نے انہیں رفقائ، وابستگان، محبان اور عامۃ المسلمین کے لئے مرتب کر دیا ہے۔ حقیر سی کوشش کرتا ہوں کہ اپنا طریقہ، وظیفہ اور معمول حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ اور اولیاء و صلحاء کے معمولات و عادات کے مطابق رہے۔ جہاں تک میرے ذاتی عمل کا تعلق ہے۔

چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک

مگر اللہ سے توفیق طلب کرتے ہوئے ان معمولات کی خیرات پر گزارا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔‘‘

(3) اسی طرح کسی نے قائد محترم سے یہ پوچھا: سنا ہے آپ کے پاس تسخیرِ قلوب کے لئے اسمِ اعظم ہے جس کی بناء پر مخلوق آپ کی طرف کشاں کشاں چلی آتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ جہاں بھی آپ کا خطاب ہوتا ہے ہزاروں لوگ بڑے شوق اور رغبت کے ساتھ گرمی، سردی کی پرواہ کئے بغیر گھنٹوں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں بلکہ گرمی سردی میں ساری ساری رات بھی آپ کا خطاب سنتے گزار دیتے ہیں، لگتا ہے یہ تسخیرِ قلوب کسی خاص وظیفہ یا اسم اعظم کی وجہ سے ہے ؟ آپ نے اس سوال کا جواب دیا:

’’میرا وظیفہ صرف یہ ہے کہ میں کوئی وظیفہ بھی دنیا اور مخلوق کے لئے نہیں کرتا جو کچھ کرتا ہوں صرف اور صرف اللہ کے لئے کرتا ہوں۔ میرے معمولات میں جتنے بھی وظائف ہیں وہ صرف حضورِ اُلُوہیت اور حضورِ محمدیت ﷺ کے لئے معمولی سا نذرانہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور حضور ﷺ کی غلامی میں کسی دنیوی نیت کو شامل نہیں کرتا۔ ہر عمل، عبادت، محنت اور ریاضت کو خالصۃً لوجہ اللہ رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ نیت کو گدلا نہ کروں۔ نہ دنیا کا سوداگر بنوں، نہ جنت کا حریص صرف طالبِ مولیٰ رہوں۔ یہ کوشش بھی توفیقِ الٰہی اور عطائے محمدی ﷺ سے ہوتی ہے، یہی میرا وظیفہ اور یہی میرا اسمِ اعظم ہے۔

اتنا حقیر گنہگار اور بیکار ہوں کہ اپنی ذات کے لئے مخصوص وظائف کا سہارا لینا بھی جسارت سمجھتا ہوں کہ کہیں ’’وہ‘‘ خفا نہ ہو جائیں کہ خواہش و طلب کا رخ ہماری طرف اور وظیفہ کا رخ دوسری طرف۔ ’’أُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ‘‘ کے تحت یہ وظیفہ اپنا لیا ہوا ہے یعنی کارسازِ ما بہ فکرِ کار ما

اللہ تعالیٰ اس کے لائق کر دے۔ (آمین) سو دوسرے پریشان حال لوگوں کے لئے یہی کچھ مطابقِ سنت پڑھ کر دعا یا دم کرتا ہوں۔‘‘

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فیوضات محمدی ﷺ سے حصہ وافر عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

محمد تاج الدین کالامی

حافظ فرحان ثنائی

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved