Dastoor e Madina awr Falahi Riyasat ka Tasawwur (Taaruf awr Khasusiyat)

اِبتدائیہ

اِسلامی تہذیب کے اِنسان دوست اور فطرت نواز درخشاں پہلوؤں نے بنی نوع اِنسان کو صدیوں تک روشنی اور رُشد و ہدایت عطا کی ہے۔ نسلِ انسانی کو اِس اَمر کا کامل اِدراک و اِحساس ہے کہ یہ اسلام ہی ہے جو باہمی بقا کا ضامن اور دائمی اَمنِ عالم کا محافظ ہے۔

دنیا میں کوئی بھی مثالی معاشرہ اُس وقت تک مستحکم بنیادوں پر اُستوار نہیں ہو سکتا جب تک اُمورِ حیات بہ حسن و خوبی چلانے کے لیے ضروری قوانین وضع نہ کیے جائیں۔ کسی بھی خطے کی ترقی اور تنزُّلی کا اِنحصار اُس کے آئین و دستور پر ہوتا ہے۔ ایک نفع بخش اور مبنی بر فلاح و بہبود قانون پر عمل درآمد ہی دنیا کو جنتِ اَرضی بنا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی معاشرے میں قانون کی پاس داری کو یقینی نہ بنایا جائے تو وہاں انسان اور حیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کی بدولت ہی کسی معاشرے میں مثالی اَمن وسکون، معاشی خوشحالی و فراخی اور محبت و رواداری کا قیام ممکن ہوتا ہے۔

اِسلام دینِ فطرت اور ایک مکمل نظامِ حیات (complete code of life) ہے جو بنی نوع انسان کی تمام ضروریات کی کفایت اور کفالت کرتا ہے۔ اِسلام کے آفاقی اُصولوں کا عملی اِظہار اور تعبیر و تشریح حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ سے ہوتی ہے۔ سیرتِ نبوی کا ایک ایک گوشہ نسلِ انسانی کے لیے اپنے اندر راہ نُمائی کے اَن گنت پہلو رکھتا ہے۔ حضور نبی آخر الزماں سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہجرت کے فوری بعد ریاستِ مدینہ کے باسیوں کونظم و ضبط اور ربط کی لڑی میں پرو کر ایک مہذب معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اسلامی قانون کی اساس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے احکام و فرامین ہیں، اِن کے بعد پھر درجہ بہ درجہ صاحبانِ اَمر کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس اَمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا.

النساء، 4: 59

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘

زندگی اِنفرادی ہو یا اجتماعی، نظم و ضبط کے لیے کسی قانون اور آئین کی محتاج ہے۔ تاریخِ انسانی میں اسلام کو یہ اِعزاز و اِمتیاز حاصل ہے کہ اس نے شعورِ انسانی کو سب سے پہلے ایک واضح، مکمل اور ہمہ جہت دستور عطا کیا۔ ہجرتِ نبوی ﷺ سے پہلے اَہلِ مدینہ شدید کشمکش اور معاشرتی تفرقہ پر مبنی ماحول میں زندگی گزار رہے تھے، اَقدار ناپید تھیں اور کسی آئین و دستور کے تحت مستحکم ریاست کا وجود سرے سے مفقود تھا۔ مدینہ طیبہ میں ہونے والی طویل جنگوں، خصوصاً اَوس و خزرج کے مابین لڑی جڑنے والی طویل جنگِ بُعاث نے اَہلِ مدینہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ مستقل خون ریزی اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے کچھ ناگزیر اقدامات کریں۔

جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مقامی جھگڑوں اور خلفشار کو ختم کرنے، انتظامی معاملات کو سدھارنے اور مستقبل کی ریاست کے انتظامی ڈھانچے کے خدّ و خال اُبھارنے کے لیے کچھ نا گزیر اور فوری اُمور کی طرف توجہ فرمائی۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے اَنصار و مہاجرین میں مواخات یعنی بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ اس سے نہ صرف مہاجرین کے معاشی مسائل حل ہوئے بلکہ مقامی سطح پر ایک ایسی مثبت، تعمیری اور صحت مندانہ فضا پیدا ہوئی جس نے مستقبل کے انتظامی اور ریاستی ڈھانچے کے رُو بہ عمل ہونے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد اس بات کے واضح امکانات پیدا ہو گئے کہ اب مدینہ طیبہ انتشار و افتراق اور لاقانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک لائقِ رشک منظم معاشرے میں ڈھل جائے گا۔ آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آئینی ریاست اور اس کے متفقہ دستور کی تشکیل کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے آغاز سے ہی ایسے اقدامات کیے جن کی بنا پر ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی اور ریاستِ مدینہ منورہ قائم ہوئی، جس سے تاریخِ انسانیت میں ایک نئے علمی، سیاسی، فکری، دستوری، تمدنی، تہذیبی، معاشی اور سماجی دور کا آغاز ہوا۔ اِس سے انسانیت دورِ انتشار سے نکل کر دستوری عہد میں داخل ہوگئی۔ وہ بنیادی سنگِ میل جو اس دورِ نَو کے آغاز کا باعث بنا، حکمرانوں اور رعایا کے باہمی حقوق و فرائض کا تعین کرنے والا ایک تاریخی دستور تھا۔ یہ دستور تمام شرکاء اجلاس کے مشورے سے مرتب اورمنظور ہوا۔ اس طرح کائناتِ انسانی کا پہلا باقاعدہ تحریری دستور (First Written Constitution) وجود میں آیا، جسے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ سے موسوم کیا گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیاسی و معاہداتی اور آئینی و دستوری جدّ و جہد میں میثاقِ مدینہ ایک نمایاں اور اساسی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دستورِ مدینہ کے آرٹیکلز ریاست کی حاکمیتِ اعلیٰ کے تعین کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی پیغمبرانہ فراست و بصیرت اور کمال دستوری مہارت کے شاہد بھی ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اِسی شعوری انقلاب کو اپنی شاعری میں یوں بیان کیا ہے:

اُتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا
اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

عرب جس پہ قَرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اِک آن میں اُس کی کایا

دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ نہ صرف امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفسِ مضمون کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری اور آئینی خصوصیات کا مظہر ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاقِ مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں، میثاق مدینہ میں بہ تمام و کمال نظر آتی ہیں۔

اِس موضوع پرمحترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اُردو زبان میں دو جلدوں میں تقریباً 1,400 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور (دستورِ مدینہ اور جدید دَساتیرِ عالم کا تقابلی جائزہ)‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے (جب کہ عربی اور انگریزی میں بھی یہ فقید المثال تحقیقی کاوِش طبع شدہ ہے)۔ اس کتاب کے درج ذیل کل 7 اَبواب ہیں:

  1. عالمِ مغرب اور عالمِ اسلام میں قانون سازی کا ارتقاء
  2. دستورِ مدینہ کی توثیق و تصدیق (دستورِ مدینہ کی روایات و آرٹیکلز کی تخریج اور راویوں کے اَحوال)
  3. دستورِ مدینہ (تحقیقی جائزہ)
  4. ریاست کے عناصرِ تشکیلی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)
  5. دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر میں نظامِ حکومت کے عمومی اُصول
  6. حقوقِ انسانی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)
  7. ریاستی اختیارات (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)

پہلی جلد اَوّل الذکر تین ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ دوسری جلد آخری چار ابواب پر محیط ہے۔ اس کتاب میں دستورِ مدینہ کا جدید دساتیر کے ساتھ تقابل کرکے واضح کیا گیا ہے کہ دستورِ مدینہ ریاست کی نوعیت و حیثیت، اَفرادِ ریاست کی آئینی حیثیت، ریاست کے حقوق و فرائض، ریاست کے باشندوں کے حقوق و فرائض اور دیگر ریاستی اُمور سمیت تمام تفصیلات کا جامع اِحاطہ کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اِس موضوع پر اِمتیازی شان کی حامل یہ اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔

اِس کتاب کے اِمتیازات و تفردات اور بعض خصوصیات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے، تاکہ اِس مختصر تحریر کے ذریعے اِس عالمانہ و فاضلانہ تحقیق کے مشتملات سے متعارف ہوا جا سکے:

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved