حضور نبی اکرم ﷺ کا پیکر جمال

حضور ﷺ کا رُوئے اَنور

3. وَصْفُ وَجْهِهِ الْمُنَوَّرِ ﴿حضور ﷺ کا رُوئے اَنور﴾

بادِ رحمت سنک سنک جائے
وادیِ جاں مہک مہک جائے
جب چھڑے بات حُسنِ اَحمدؐ کی
غنچۂ دل چٹک چٹک جائے

حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرۂ اَنور گولائی میں چاند کی مانند تھا، لیکن بہت زیادہ گول نہ تھا۔ بلکہ گولائی اور لمبائی کے درمیان نہایت متوازن تھا۔یہ چہرۂ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح تاب دار تھا۔ آئینہ کی طرح چمکتے اس چہرہ پر جب زیارت کے لیے آنے والوں کی نظر پڑتی تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔حضرت سید پیر مہر علی شاہؒ نے اپنی مشہور نعت میں آپ ﷺ کے روئے انور کا ذکرجن الفاظ میں کیا ہے، وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں:

اِس صورت نوں جان آکھاں
جان آکھاں کہ جانِ جہاں آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ مَا أَجْمَلكَ، مَا أَحْسَنَكَ، مَا أَکْمَلَكَ
کتھے مہر علی! کتھے تیری ثنا! گستاخ اکھیں کتھے جا اَڑیاں

15. عَنْ أَبِي بَكْرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ وَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ کَدَارَةِ الْقَمَرِ([16]).

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا روئے منور (چودھویں کے) چاند کے دائرہ کی مانند دکھائی دیتا تھا۔

16. قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ : وَکَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِیْرٌ([17]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (آپ ﷺ کے) چہرۂ مبارک میں قدرے گولائی تھی۔

17. قَالَ أَبُوْ هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ : أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ حَمْشَ الْوَجْهِ، لَمْ أَرَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ([18]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نہایت حسین و وجیہہ اور نکھرے ہوئے شگفتہ و شاداب چہرے والے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ جیسا حسین کوئی نہیں دیکھا۔

18. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهِ([19]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دنیا میں کوئی شے رسول اللہ ﷺ سے حسین نہیں دیکھی۔ (آپ ﷺ کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا)گویا چہرۂ اَنور میں سورج (جیسی تابانی و رخشندگی موج زن اور) رواں ہے۔

19. سُئِلَ الْبَرَاءُ رضی اللہ عنہ : أَکَانَ وَجْهُ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ([20]).

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرۂ انور کی چمک تلوار کی طرح تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ (آپ ﷺ کے چہرے کی نورانیت) چاند کی طرح تھی۔

20. سُئِلَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ :رضی اللہ عنہ وَجْهُهُ ﷺ مِثْلُ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، وَکَانَ مُسْتَدِیْرًا([21]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا چمکنا تلوار کی مانند تھا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، بلکہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سورج اور چاند کی طرح چمکتا تھا اور اس میں قدرے گولائی بھی تھی۔

وَقَدْ قِيْلَ: مِثْلَ الْقَمَرِ الْمُسْتَدِيْرِ، لَكِنْ لَمْ يَكُنْ مُسْتَدِيْرًا جِدًّا، بَلْ كَانَ بَيْنَ الْاِسْتِدَارَةِ وَالْاِسْتِطَالَةِ([22]).

کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ کا چہرۂ انور گولائی میں چاند کی مانند تھا، لیکن بہت زیادہ گول نہ تھا۔ بلکہ گولائی اور لمبائی کے درمیان نہایت متوازن و متناسب تھا۔

21. قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ : كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّی کَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، وَکُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ([23]).

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ ﷺ جب (کسی بات پر) خوش ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک یوں روشن ہو جاتا کہ لگتا گویا وہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم آپ ﷺ کی اس کیفیت سے آپ ﷺ کی طبیعت کی خوش گواری و شگفتگی کو جان جاتے تھے۔

22. عَنْ أَبِي الطُّفَیْلِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ ﷺ أَبْیَضَ، مَلِیْحَ الْوَجْهِ([24]).

حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: آپ ﷺ کا چہرۂ اَقدس جاذبِِ نظر سفید رنگت والا تھا۔

23. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: یَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ ﷺ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ([25]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا چہرۂ اَنور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔

24. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَخَلَ عَلَیْهَا مَسْرُوْرًا تَبْرُقُ أَسَارِیْرُ وَجْهِهِ([26]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ اُن کے پاس (یوں) خوشی کے عالم میں تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک کے نقوش (اور خدوخال) سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔

25. وَقَدْ قِيْلَ: إِذَا سُرَّ، فَكَأَنَّ وَجْهَهُ الْمِرْآةُ، وَكَأَنَّ الْجُدُرَ تُلَاحِكُ وَجْهَهُ، أَيْ: يُرَى شَخْصُ الْجُدُرِ فِي وَجْهِهِ([27]).

یہ بھی کہا گیا ہے: جب آپ ﷺ کسی بات پر خوش ہوتے تو روئے انور آئینے کی طرح یوں چمک اُٹھتا کہ دیواروں کا عکس تک آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس میں نمایاں ہونے لگتا۔

26. وَعَنْهَا رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: سَقَطَتْ عَنِّيَ الْإِبْرَةُ، فَطَلَبْتُهَا فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَیْهَا، فَدَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَتَبَیَّنَتِ الْإِبْرَةُ لِشُعَاعِ نُوْرِ وَجْهِهِ ﷺ ([28]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: (ایک مرتبہ سلائی کرنے کے دوران) سوئی میرے ہاتھ سے گر گئی۔ میں نے اُسے بہت تلاش کیا مگر (ناکافی روشنی کے باعث) مجھے نہ ملی، اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ حجرۂ مبارک میں داخل ہوئے، آپ ﷺ کے چہرۂ اَنور کی نورانی شعاعوں سے مجھے وہ سوئی (پل بھر میں) نظر آگئی۔

27. عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو السَّهْمِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَهُوَ بِمِنًی أَوْ بِعَرَفَاتٍ، وَقَدْ أَطَافَ بِهِ النَّاسُ، قَالَ: فَتَجِيءُ الْأَعْرَابُ، فَإِذَا رَأَوْا وَجْهَهُ، قَالُوْا: هَذَا وَجْهٌ مُبَارَكٌ([29]).

حضرت حارث بن عمرو السہمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں منٰی یا عرفات کے مقام پر رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) آپ ﷺ کی زیارت کے لیے لوگ جوق در جوق (بےتابانہ اور پروانہ وار) آ رہے ہیں۔ (میں نے مشاہدہ کیا کہ دور اُفتادہ علاقوں سے) دیہاتی لوگ آتے اور جب ان کی نظر آپ ﷺ کے رُوئے اَنور پر پڑتی تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے: یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔

28. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَیْسَ بِوَجْهِ کَذَّابٍ([30]).

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ مبارک (پہلی مرتبہ) دیکھا تو (بلا توقف) پہچان گیا کہ یہ نورانی چہرہ (کسی سچے نبی کا ہی ہو سکتا ہے) جھوٹے دعوے دارکا نہیں۔


حوالہ جات


([16]) ذكره ابن الجوزي في الوفا/412، والهندي في کنز العمال، 7/162، الرقم/18526.

([17]) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبيﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأیضًا في الشمائل المحمدیة/32، الرقم/7، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/411-412، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/149-150، الرقم/1415، والنمیري في أخبار المدینة، 1/319، الرقم/968، وابن عبد البر في الاستذكار، 8/331، وأیضًا في التمهید، 3/29، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/261.

([18]) أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 4/59، الرقم/2727، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/272، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/116، والحلبي في السیرة الحلبیة، 3/434.

([19]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/350، 380، الرقم/8588، 8930، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/604، الرقم/3648، وابن حبان في الصحیح، 14/215، الرقم/6309، وابن المبارك في المسند، 1/17، الرقم/31، وأیضًا في كتاب الزهد/288، الرقم/838، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 6/573.

([20]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1304، الرقم/3359، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/281، الرقم/18501، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3636، والدارمي في السنن، 1/45، الرقم/64، وابن حبان في الصحیح، 14/198، الرقم/6287، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/224، الرقم/1926.

([21]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب شیبه ﷺ، 4/1823، الرقم/2344، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/104، الرقم/21036، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/328، الرقم/31808، وابن حبان في الصحیح، 14/206، الرقم/6297، وأبو یعلی في المسند، 13/451، الرقم/7456، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/151، الرقم/1419.

([22]) البيجوري في المداهب اللدنية على الشمائل المحمدية/25.

([23]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1305، الرقم/3363، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبة، باب حدیث توبة كعب بن مالك وصاحبیه، 4/2127، الرقم/2769، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/458، الرقم/15827، والنسائي في السنن الکبری، 6/359- 360، الرقم/11232.

([24]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان النبي ﷺ أبیض ملیح الوجه، 4/1820، الرقم/2340 (1)، والبخاري في الأدب المفرد/276، الرقم/790، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/205، وذکره السیوطي في الشمائل الشریفة/22.

([25]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/36-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([26]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1304، الرقم/3362، ومسلم في الصحیح، کتاب الرضاع، باب العمل بإلحاق القائف الولد، 2/1081، الرقم/1459، وأبو داود في السنن، کتاب الطلاق، باب في القافة، 2/280، الرقم/2268، والترمذي في السنن، کتاب الولاء والهبة، باب ما جاء في القافة، 4/440، الرقم/2129، والنسائي في السنن، کتاب الطلاق، باب القافة، 6/184، الرقم/3493.

([27]) ابن الأثير في النهاية في غريب الأثر والحديث، 4/238-239.

([28]) أخرجه إسماعیل الأصبهاني في دلائل النبوة/113، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/310، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/107.

([29]) أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب في المواقیت، 2/144، الرقم/1742، والبخاري في الأدب المفرد/392، الرقم/1148، والطبراني في المعجم الکبیر، 3/261، الرقم/3351، والبیهقي في السنن الکبری، 5/28، الرقم/8701، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 3/269.

([30]) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، باب منه، 4/652، الرقم/2485، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام اللیل، 1/423، الرقم/1334، والدارمي في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل صلاة اللیل، 1/405، الرقم/1460، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/248، الرقم/25740، والحاکم في المستدرک، 3/14، الرقم/4283.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved