Kitab al-Tawhid (Jild Duwum)

فصل 2 :واسطۂ رسالت کی دینی اہمیت

گزشتہ صفحات میں جس طرح ہم اس حقیقت سے روشناس ہوئے کہ عالمِ امر سے عالمِ خلق تک اور عالمِ ارواح سے عالمِ حشر تک، انبیاء و رسل ہوں یا عام انسان، ہر کسی کو حسبِ حال ہر اہم مرحلے پر واسطۂ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتسابِ فیض کی ضرورت پڑتی رہی اورپڑتی رہی گی ۔ جس طرح ہر موڑ پر اور ہر قدم پر نظامِ قدرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ محتشم رسولِ معظم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطۂ جلیلہ باعثِ نجات و برکت بنایا ہے بالکل اسی طرح مسلمان ایمان کے حصول سے لے کر اس کی حفاظت و اِرتقاء اوراعمال و افعال کی قبولیت تک، ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّط، توسُّل اور تعلقِ محبت کا محتاج ہے۔ذیل میں ہم اس کی مزید تفصیلات زیر بحث لاتے ہیں۔

1۔ واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر توحید ایمان نہیں بن سکتی

قرآنِ مجید میں کفار و مشرکین کے تصورِ توحید اور وجودِ باری تعالیٰ سے متعلق ان کے عقیدے کے بارے میں ارشاد ہوا:

وَلَئِنْ سَأَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ ج فَاَنّٰی یُؤفَکُونَo اللهُ یَبْسُطُ الْرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ ط اِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo وَلَئِنْ سَأَلْتَهُم مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مآءً فَاَحْیَا بِہِ الاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُولُنَّ اللهُ ط قُلِ الْحَمْدُ ِﷲِ ط بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُونَo

العنکبوت، 29: 61-63

’’اور اگر آپ اِن (کفّار) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے تابع فرمان بنا دیا تو وہ ضرور کہہ دیں گے: اللہ نے، پھر وہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے، اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے اُتارا پھر اس سے زمین کو اس کی مُردنی کے بعد حیات (اور تازگی) بخشی تو وہ ضرور کہہ دیں گے اللہ نے، آپ فرما دیں: ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر (لوگ) عقل نہیں رکھتے۔‘‘

اِن آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ کفار کا عقیدئہ توحید چونکہ خودساختہ اور اِقرارِ رسالت سے خالی ہے اس لیے وہ ایمان نہیں بن سکتا کیونکہ توحید بننے کے لئے واسطۂِ رسالت شرط ہے۔ وہ عقیدہ جو واسطۂِ رسالت سے حاصل ہو وہی ایمان بنتا ہے جیسے سورۂ نجم میں فرمایا:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo

النجم، 53: 3۔4

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کرنے کو کسی بھی ذاتی خواہش سے مبرا قرار دیا اور فرمایا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبانِ حق ترجمان سے بیان کرتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتا ہے۔ ان پر جو وحی نازل ہوتی ہے اسے وہ من و عن آگے منتقل (communicate) کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام و پیغام پہنچانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو واسطہ بنایا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ.

محمد، 47: 2

’’اور (جو لوگ) اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیئے اور ان کا حال سنوار دیا۔‘‘

یہاں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے ایک معیارِ اِیمان قائم کر دیا وہ یہ کہ جو کچھ اس نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا وہی حق ہے اور جو گفتۂِ حق انہوں نے اپنی زبان سے بیان کر دیا ’’وَھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ (وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے) اور حق بات کے سوا اور کچھ نہیں جس پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے کہ زبانِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوائے وحی الٰہی کے اور کوئی بات صادر نہیں ہوئی۔

2۔ ہدایت پر استقامت کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جس طرح ہدات پانے کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت ہے اسی طرح ہدایت پر قائم رہنے اور استقامت حاصل کرنے کے لئے بھی بارگاہِ اُلوہیت میں صرف ایک واسطہ اور ذریعہ ہے اور وہ ہے واسطۂِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا:

وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَ أَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَ فِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ ط وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ ھُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیْمٍo

آل عمران، 3: 101

’’اور تم(اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑلیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘

یہ آیتِ کریمہ بھی توسُّط پر دلالت کرتی ہے۔ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا واسطہ اور ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر راہِ ہدایت کی روشنی عطا فرماتا ہے ۔ جبکہ وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ کفر کی طرف پلٹ کرنہ جانا بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور واسطہ سے ہے۔ یعنی ہدایت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اور اس ہدایت پر استقامت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے۔ اللہ تعالیٰ قادر و قیوم ہے۔ وہ براہِ راست ہدایت دے سکتا ہے مگر جب وہ خود فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے ہمیں ہدایت پر قائم رکھے گا تو اس سے ہمارے لئے یہی ثابت ہوا کہ واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہمارے لئے دین و دنیا میں ڈھال ہے۔ دنیا میں کفر کے ارتکاب سے اور آخرت میں عذابِ جہنم سے۔

سورۂ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْ ط وَمَا کاَنَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo

الانفال، 8: 33

’’اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آنحالیکہ (اے حبیبِ مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود ) ہوں،اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت سے عذاب ٹال دینے کی دو وجوہات بیان فرمائیں:

  1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان میں موجودگی
  2. اللہ تعالیٰ سے طلبِ مغفرت

سب سے پہلے امت کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کو عذاب سے ڈھال قرار دیا۔ اس کے بعد اپنے حضور طلبِ مغفرت کو عذاب ٹلنے کا سبب فرمایا۔ بارگاہِ اُلوہیت میں طلبِ مغفرت سے بھی مقدم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں ان کے وسیلہ سے امت پہ عذاب نہیں آسکتا۔ بعض لوگ اس سے ظاہری حیاتِ طیبہ مراد لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ درست نہیں۔ یہاں بالکل ایسی کوئی بات نہیں کہ ظاہری حیاتِ مبارکہ میں تو توسُّل جائز ہو اور بعد از ممات ناجائز ہو جائے بلکہ یہاں مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کا ذکر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک قائم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ بھی حیات ظاہری کی طرح اب بھی جائز ہے۔

3۔ حصولِ تقویٰ کے لئے واسطۂ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تمام عباداتِ الہٰیہ کا مقصد حصولِ تقویٰ ہے، جیسے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیّت کا مقصد بیان فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo

البقرہ، 2: 183

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘

لیکن یہ تقویٰ کیسے حاصل ہو؟ انسان کیسے متقی بن سکتا ہے؟ اگر تقویٰ تمام نیکیوں کی اصل ہے تو اس سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ذہن سے اٹھنے والے ایسے سوالات کا جواب ہمیں قرآن حکیم کی اس ایک آیت سے مل جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo

الزمر، 39: 33

’’اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں۔‘‘

اس آیتِ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے بالاتفاق اَلَّذِیْ سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد لی ہے۔ یہاں بطورِ استشہاد چند اقوال پیشِ کیے جاتے ہیں۔

1۔ علامہ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں ’’وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ ‘‘ کے تحت مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس اور ابنِ زید سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ هو رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم.

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 54

’’وہ ذات جو صدق لے کر آئی اس سے مراد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

2۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے بھی اسی طرح توضیح فرمائی ہے۔

{وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ} النبی صلی الله علیه وآله وسلم {وَصَدَّقَ بِہٖ} أبو بکر رضی اللہ عنہ.

سیوطی، الدر المنثور، 7: 288

’’یعنی اَلَّذِیْ سے مراد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صَدَّقَ بہ سے مراد حضرت ابو بکر صدیق ص ہیں۔‘‘

اہلِ علم جانتے ہیں کہ ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ کلمۂ حصر ہے، قرآن حکیم تقویٰ کے مفہوم کو متعین کرنے کے بعد ان کلمات کو بطورِ حصر لا کر میعارِ تقویٰ کو واضح کرتے ہوئے یہاں ایک شرط لگارہا ہے، جس کو پورا کئے بغیر کوئی شخص بھی تقویٰ کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ جو اس شرط کو پورا کرے گا وہی متقی ہو گا اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے وہ اگر عبادت و ریاضت کے پہاڑ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتا پھرے، متقی نہیں بن سکتا۔

تقویٰ کی شرط

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی شرط ہے جس پر تقویٰ کا انحصار ہے ارشاد فرمایاگیا: اَلَّذیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِٓ، وہ ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سچائی لے کرآئی اور جس نے اس سچائی کی تصدیق کی، اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ، وہی متقی ہیں۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر ہوچکا کہ اس آیت کے پہلے حصے سے مراد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں کیونکہ نبی خود بدرجہ اولیٰ اپنی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔ تفاسیر میں اس آیت کے تحت اس کی بھی وضاحت ملتی ہے مثلاً تفسیر روح البیان میں ہے۔

ودَلت الاٰیۃ علی انّ النبیں یصدق أیضاً بما جاء بہٖ من عند اللہ ویتلقاہ بالقبول کما قال اللہ تعالی: ’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ۔ (البقرہ، 2: 285)

إسماعیل حقی، تفسیر روح البیان، 8: 108

’’یہ آیتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس حقیقت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں، جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرحمت فرمائی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی (دوسروں کی طرح) اس پرایمان لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’(وہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا۔‘‘

مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متقی کہنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا اظہار ہے؟ آیتِ مبارکہ کا مدعا یہاں ہرگز یہ نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذآتِ بابرکات تو متقی گر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تقویٰ کی دولت تقسیم فرماتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقویٰ کی وہ بنیاد لے کر زینت آراء بزمِ کون و مکاں ہوئے جس سے خود تقویٰ کو وجود ملا۔ لہٰذا یہاں بات اُس شخص کی ہورہی ہے جو اس سچائی کو بہ دل و جان تسلیم کرے گا اور اس کی تصدیق کرے گا۔

تصدیق کیا ہے؟

اب لفظِ صدق پر غور کرنے سے اس شرط کی نوعیت اور ضرورت مزید واضح ہوجائے گی۔ تصدیق عربی لفظ ’’صَدَقَ‘‘ سے باب تفعیل کے وزن پر ہے۔ اس کے معنٰی ’’دل کی گہرائیوں سے کسی چیز کو تسلیم کرلینے اور مان لینے کے ہیں۔ مفردات میں امام راغب ؒ نے صدق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

الصِّدْقُ مُطابقۃُ القَوْل الضمیر والمخبرعنہ معاً. ومتٰی انحرم شرط من ذالک لم یکن صِدْقًا تاماً.

راغب الأصفهانی، المفردات فی غریب القرآن: 277

’’صدق کے معنی ہیں دل و زبان کی ہم آہنگی اور بات کا نفسِ واقع کے مطابق ہونا اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا۔‘‘

لہٰذا، اس سچائی کو اس حیثیت سے ماننا ہی حقِ تقویٰ ہے۔ بالکل اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے ایک دوسرے مقام پر واضح کیا اور تقویٰ کو تصدیق کرنے والوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے فرمایا:

اُولٰـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo

البقرہ، 2: 177

’’یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‘‘

توضیحات بالاسے یہ واضح ہوا کہ آیتِ متذکرہ میں اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جن افراد نے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سچائی کی بلا تامل تصدیق کردی وہی صحیح معنوں میں متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بزرگی پائے ہوئے ہیں یہی وہ شرط ہے جو تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ معلوم ہوا حصولِ تقویٰ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اور ان پر ایمان بنیادی چیز ہے۔

4۔ محبتِ الٰہی کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تقویٰ کا ماحصل رضائے الہٰی کا حصول ہے اور یہی انسانی زندگی کا نصب العین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے بغیر انسان کو اس کا قرب و رضا میسر نہیں آسکتا۔ قرآن مومنین کی علامت بیان کرتے ہوئے یہ شہادت فراہم کررہا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ.

البقرہ، 2: 165

’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

لیکن کیا قرآن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا طریقہ یا راستہ بھی بتاتا ہے یعنی کوئی آدمی اگر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہے تو اس کا طریقہ کارکیا ہونا چاہیے؟ قربان جائیں قرآن کی عظمت پر جو قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے، فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo

آلِ عمران، 3: 31

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ سے بے شمار مفاہیم اور حکمتیں مترشح ہیں لیکن یہاں سرِدست یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ

  • اگر کوئی یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرکے اس کی رضا حاصل کرے اور اس کے قرب و وصال کی لذتوں سے لطف اندوز ہونا چاہے کہ یہی مقصود بندگی ہے تو یہ صرف اور صرف واسطۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشروط ہے۔
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع اور تعلقِ غلامی انسان کو محب کے مقام سے اٹھا کر محبوبِ الٰہی بنا دیتی ہے۔
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ اطاعت میں آنے سے پہلے انسان اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتا تھا مگر جب غلامی اختیار کرلی تو اب نہ صرف محبت کرنے لگا بلکہ اس کا محبوب بن گیا اور اللہ جل مجدہ اس انسان کامحب بن گیا۔ کہاں وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خواہش کرتا تھا اور کہاں یہ مقام جہاں خدا خود اس کامحب بن کر ہر آن اس کی رضا چاہتا ہے؟ پھر وہ بندہ صرف بندہ نہیں، عبدہٗ اور محب نہیں بلکہ محبوب بن جاتا ہے۔

عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر

کیا یہ سب رفعتیں، عظمتیں اور بندہ نوازیاں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حبی تعلق اور توسط کا ثمر نہیں ہیں؟ یقینا ہیں۔

5۔ اطاعتِ الٰہی کے لئے واسطۂ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محبتِ الٰہی بندے سے اطاعتِ الٰہی کا تقاضا کرتی ہے۔ تقویٰ کے عمومی تصور کے مطابق اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی تقویٰ ہے۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر اطاعتِ الہٰی کی تلقین فرمائی ہے اور اس کو کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔

1۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلِ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ.

النساء، 4: 64

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں رسولوں کی بعثت کا سبب بیان کیا گیا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ تاکہ اللہ کے حکم سے جو کچھ وہ کہیں اسے مانا جائے اور قبول کیا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے۔ اس آیتِ کریمہ میں اس تصور کو ذہن میں راسخ کیا گیا ہے کہ نبی اور رسول علیہم السلام ہی اللہ تعالیٰ کی بات انسانوں تک پہنچانے کیلئے درمیانی واسطہ اور ذریعہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے اذن سے لوگوں تک پہنچائیں اور وہ جو کہیں اس کو سچ مانا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کیونکہ وہی حق ہے۔ رسولوں کی جماعت اللہ گ کو جاننے، ماننے اور ایمان لانے کا واحد ذریعہ (Source) ہے، گویا توحید اور ایمان باللہ کا تحقق صرف اور صرف نبوت و رسالت کے واسطے سے ہوتا ہے۔

2۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی واضح الفاظ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو ہی اپنی اطاعت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ.

النساء، 4: 80

’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘

یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی بات کو مانا جائے تبھی ایمان نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد خصوصی طور پر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی یا جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے فَقَدْ اَطَاعَ اللہ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس آیتِ مبارکہ نے ایک بڑی قرآنی حقیقت (Quranic fact) کو یہ کہہ کر متحقق کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا بلاواسطہ ذریعہ سوائے واسطۂِ رسالت کے اور کوئی نہیں ہے۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو تو یہ سمجھ کر کیا کرو کہ ہم صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت نہیں کرتے ، بلکہ یہی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کاتصور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے بغیر محض ایک مجرد خیال ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم bstract idea) رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ل پیکرِ محسوس نہیں ہے۔ نہ تو اس کی بات کسی کو سنائی دیتی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کا فعل کسی کو دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم (اطاعت) پر عمل اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بس اسی طرح آنکھیں بند کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و غلامی کی جائے یہ جانتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت عین اطاعتِ الٰہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت و سرکشی اللہگ سے بغاوت و سرکشی ہے۔ حدیثِ صحیح کے الفاظ اس حقیقت کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم فَقَدْ عَصَی اللهَ وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب اقتداء بسنن رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم ، 6: 2655، رقم: 6852

’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نا فرمانی کی تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی (اچھے اور برے) لوگوں کے درمیان معیارِ امتیاز ہے۔‘‘

حکیم الاُمت علامہ محمد اقبال ؒبڑے اچھوتے اور خاص انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کو ذاتِ الٰہی تک رسائی کاذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

عاشقی! محکم شو اَز تقیلدِ یار
تاکمندِ تو شود یزداں شکار

(اے خدا سے عشق و محبت کا دعویٰ کرنے والے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رابطہ و غلامی اور اطاعت کے رشتے میں پختگی پیدا کر، تاکہ ان کی غلامی کے ذریعے تیری کمندِ عشق بارگاہِ خداوندی تک پہنچ سکے۔)

بارگاہِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعراض علامتِ نفاق ہے

قرآنِ مجید میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے وابستگی پر اَجر و ثواب کا ذکر ہوا ہے جبکہ درِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جبیں ہائے نیاز نہ جھکانے والوں اور بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمداً دوری اختیار کرنے والوں کی مذمت میں ارشاد فرمایا گیا:

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo

النساء، 4: 61

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘

یعنی جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ غلامی استوار کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو ان میں منافق لوگ بارگاہِ اُلوہیت میں جانے سے تو انکار نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو حق تسلیم کرتے ہیں لیکن ’’یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آنے سے اعراض اور پس و پیش کرتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے ان کے گلے میں منافقت کاطوق پہنادیا گیاہے۔

اس آیت میں مسلمان اور منافق کی پہچان کاکلیہ اور قاعدہ متعیّن فرما دیا۔ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھاگنے والے اگر بارگاہِ اُلوہیت میں جانا چاہیں تو یہ ناممکن ہے کیونکہ:

تیرے در سے جو یار پھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں!

لیکن جو شخص حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آجائے وہ خود بخود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ۔

6۔ گناہوں کی بخشش و مغفرت کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قبل ازیں یہ ذکر ہوچکاہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہیں۔ اس واسطہ سے انحراف برتتے ہوئے ذاتِ خداوندی تک رسائی ہرگز ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے پھرنے والوں کو اسی لیے تو منافق گردانتا ہے کہ وہ اس ذات کے واسطے کو فراموش کرکے اللہ تعالیٰ سے ڈائریکٹ تعلق بحال کرنا چاہتے ہیں۔ جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کی خبر دی اور اس کی واحدانیت اور شانِ خالقیت سے متعارف کرایا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا اگر توحید کے منافی ہے تو پھر ایسے لوگوں کو اپنے ایمان اور اسلام کی فکر کرنی چاہیئے۔

اللہ رب العزت ان کے اس زعمِ باطل کو رد کردیا کہ نہیں محبوب! جو تیری بارگاہ میں جھکنے سے گریزاں ہے وہ میری بارگاہ میں روزانہ سجدے کرتا پھرے، ساری ساری رات عبادت کرتا رہے اور شب و روز ریاضتیں، مجاہدے اور تسبیحات کرتا رہے اور پوری زندگی دین کے نام پر ختم کردے، اس کا وہ دین دین نہیں جس میں تیری نسبت و تعلق اور واسطے کاسبق نہ ہو۔ ان کی عبادتیں عبادت نہیں جو تیری محبت سے خالی ہوں۔ اور اس کی ان شب بیداریوں کا کوئی فائدہ نہیں جو تیری یاد میں آنکھوں کو اشکوں سے باوضو نہ رکھیں۔ یعنی جب تک وہ تیری بارگاہ میں سرِ تسلیم خم نہیں کرتے، ان کا شجرِ ایمان بے ثمر رہے گا۔ ان کی نیکیوں کی قیمت بھی تیری غلامی کی تصدیق سے پڑے گی۔ یہاں تک کہ وہ اگر اپنے گناہوںکی معافی بھی براہِ راست مجھ سے مانگیں گے تو اس وقت تک انہیں نہیں بخشوں گا، جب تک وہ تجھ سے غلامی کا رشتہ استوار نہ کرلیں۔ اس کی گواہی قرآن دے رہا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَآئُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo

النساء، 4: 64

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطہ بنانے کا حکم دیا ہے۔

جَآئُوْکَ کا مفہوم

مذکورہ آیتِ کریمہ میں لفظ ’’جَآئُ وْ کَ‘‘ کے ذریعے یہ واضح کردیا گیا کہ بارگاہِ ِرِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک لائقِ تعظیم و تکریم ہے۔ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے خطاکاروں کو آج بھی معافی اسی در سے تعلق اور واسطہ استوار کرنے سے ملتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کایقین رکھتے ہوں۔ جو بھی دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوگا، خواہ وہ ظاہراً بارگاۂِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری میں ہو یا باطناً، محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ، یااطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے توسلاً اور توجہاً، سب صورتیں ’’جائُ وْ ک‘‘ کے تحت واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعبیریں ہیں کیونکہ

یہ گھر یہ دَر ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچھے گھر کی ہے!

مجرم بلائے، آتے ہیں ’’جاَئُوْ کَ‘‘ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

یہ آیتِ کریمہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھا۔ مفسرینِ کرام اور ائمہ حدیث نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔(اس کی تفصیل ہماری کتاب عقیدۂ توسّل میں ملاحظہ کریں۔)

قابلِ غور نکتہ

یاد رہے کہ اس آیتِ کریمہ میں ظلم سے مراد گناہ، نافرمانی اور اللہ تعالیٰ سے سرکشی ہے۔ ظاہر ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاباعث ہیں گویا مرادی معنی یہ ہوا کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیں تو معافی کے لئے تیرے پاس آئیں۔یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس کو ناراض کیاگیا اب راضی کرنے بھی اس کی بارگاہ میں جانا چاہیے مثلاً اگر کوئی زید کو ناراض کردے اور معافی مانگنے کے لئے بکر کے پاس چلا جائے تو کیا زید اس کو معاف کردے گا؟ ہر گز نہیں۔ لیکن اُس دنیائے محبت کے تواصول و قواعدی ہی نرالے ہیں فرمایا: ’’جَائُ وْ کَ ‘‘محبوب !اگر وہ مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش کے طلب گارہیں تو تیرے پاس آئیں اور پھر فرمایا: فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ جب آجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ یہاں کوئی سوچ سکتا تھا کہ باری تعالیٰ اگر معافی ہی لینی تھی تو وہ گھر بھی مانگی جاسکتی تھی۔ وہ کسی مسجد میں بھی تجھ سے طلب کی جاسکتی تھی، بلکہ خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام سے بڑھ کر اور کون سا مقام ہوگا۔ لیکن تو نے اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پابندی کیوں لگائی؟ حالانکہ تو تو ہر جگہ اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے کیونکہ تو نے خود ہی تو فرمایا ہے:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo

البقرہ، 2: 186

’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں۔‘‘

پھر تیرا یہ بھی فرمان ہے کہ:

وَ نَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo

ق، 50: 16

’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

اس کے باوجود معافی کے لئے گناہگاروں کو اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دَر پر کیوں بلاتا ہے؟ تو فرمایا تمہیں یہی سبق سکھانا مطلوب تھا کہ:

بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفر مقر!
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved