اربعین: روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت

اسناد کا معنی و مفہوم اور اہمیت و مرتبہ

قَدْ تَرْجَمَ الإِمَامُ مُسْلِمٌ الْبَابَ فِي مُقَدَّمَةِ صَحِیْحِهٖ: ’بَابُ بَیَانِ أَنَّ الإِسْنَادَ مِنَ الدِّیْنِ، وَأَنَّ الرِّوَایَةَ لَا تَکُوْنُ إِلاَّ عَنِ الثِّقَاتِ‘.

نَعْلَمُ أَنَّ لِلْإِسْنَادِ مَکَانَةً وَأَهَمِّیَّةً فِي الْإِسْلَامِ، إِذِ الْأَصْلُ فِي ذٰلِکَ تَلَقِّي الْأُمَّةِ لِهٰذَا الدِّیْنِ عَنِ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِیْنَ، وَهُمْ تَلَقَّوْهُ عَنْ رَسُوْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَهُوَ تَلَقّٰی عَنْ رَبِّ الْعِزَّةِ وَالْجَلَالِ بِوَاسِطَةٍ أَوْ بِغَیْرِ وَاسِطَةٍ، کَمَا هُوَ مَعْلُوْمٌ مِنْ أَقْسَامِ الْوَحْيِ. وَکَذٰلِکَ الْإِسْنَادُ وَسِیْلَةٌ لِتَمْیِیْزِ الْأَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَةِ مِنَ الضَّعِیْفَةِ، مِمَّا یَتَرَتَّبُ عَلَیْهِ مَعْرِفَۃُ أَحْکَامِ أَوْ تَعَالِیْمِ الدِّیْنِ.

وَلِذٰلِکَ مِنَ الأَنْسَبِ أَنْ نَذْکُرَ مَعْنَی السَّنَدِ وَالإِسْنَادِ اللُّغَوِيِّ وَالاِصْطِلَاحِيِّ وَتَعْرِیْفَهُمَا، قَبْلَ أَنْ نَذْکُرَ الْجَوَانِبَ الْمُخْتَلِفَةَ لِفَضِیْلَةِ الإِسْنَادِ وَأَهَمِّیَّتِهٖ، لِتَتَبَیَّنَ أَهَمِّیَّۃُ الإِسْنَادِ وَأَخْذِ الْعِلْمِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ وَالْعُلَمَاءِ الْکَامِلِیْنَ.

اِسناد کی اَہمیت کے حوالے سے امام مسلم نے اپنی ’صحیح‘ کے مقدمہ میں یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے: ’اِسناد کا دین میں سے ہونے اور روایت کا صرف ثقہ راویوں سے لینے کا بیان‘۔

ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں اِسناد کو ایک خاص اَہمیت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے، کیونکہ سند کے ذریعے درحقیقت اِس اُمت کا دین کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حاصل کرنا مراد ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رب العالمین کے رسول حضرت محمد ﷺ سے حاصل کیا ہے، اور آپ ﷺ کا رب العزت و الجلال سے بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل کرنا ہے، جیسا کہ یہ بات وحی کی اقسام سے معلوم ہے۔ اِسی طرح اِسناد صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے الگ کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جس پر دین اسلام کے اَحکامات اور تعلیمات مترتب ہوتی ہیں۔

قبل اِس کے کہ ہم اِسناد کی فضیلت و اَہمیت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالیں، مناسب ہوگا کہ لفظ ’سند‘ اور ’اِسناد‘ کی لغوی و اِصطلاحی وضاحت اور ان کی تعریفات بیان کردی جائیں تاکہ اِسناد اور سلف صالحین اور علماء کاملین سے علم لینے کی اَہمیت مزید نکھر کر سامنے آجائے۔

اَلسَّنَدُ وَالْإِسْنَادُ لُغَةً

سند اور اِسناد کا لغوی معنی

اَلإِسْنَادُ: مَصْدَرُ أَسْنَدَ؛ وَھُوَ مُشْتَقٌّ مِنْ سَنَدَ.

لغت میں اِسناد، أَسْنَدَ کا مصدر ہے اور یہ ’سند‘ سے مشتق ہے۔

(1) قَالَ ابْنُ مَنْظُوْرٍ فِي اللِّسَانِ وَابْنُ الأَثِیْرِ فِي النِّهَایَةِ:

اَلسَّنَدُ لُغَةً: هُوَ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الأَرْضِ فِي قُبُلِ الْجَبَلِ أَوِ الْوَادِي، وَمِنْهُ سُنُوْدُ الْقَوْمِ فِي الْجَبَلِ أَي صُعُوْدُهُمْ.

ابن منظور في لسان العرب، 3: 220، وابن الأثیر الجزري في النهایة في غریب الحدیث والأثر، 2: 408

(1) ابن منظور افریقی نے ’لسان العرب‘ میں اور ابن الاثیر نے ’النہایۃ فی غریب الاثر‘ میں لکھا ہے:

لغت میں سند سے مراد پہاڑ یا وادی کاسامنے والا وہ حصہ جو زمین سے بلند ہو، اور اسی سے سُنُودُ الْقَومِ فِي الْجَبَلِ کا معنی ہے لوگوں کا پہاڑ پر چڑھنا۔

(2) قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي الْغَرِیْبِ، وَالزَّمَخْشَرِيُّ فِي الْفَائِقِ وَابْنُ مَنْظُوْرٍ فِي اللِّسَانِ وَالْمُلاَّ عَلِيٌّ الْقَارِيُّ فِي الْعُمْدَةِ:

یُقَالُ: أَسْنَدَ فِي الْجَبَلِ، یُسْنِدُ إِذَا صَعِدَ.

ابن الجوزي في غریب الحدیث، 1: 503، والزمخشري في الفائق في غریب الحدیث والأثر، 3: 134، وابن منظور في لسان العرب، 3: 221، والملا علي القاري في عمدۃ القاري، 17: 143

(2) علامہ ابن الجوزی نے ’غریب الحدیث‘ میں، زمخشری نے ’الفائق فی غریب الحدیث والاثر‘ میں، ابن منظور افریقی نے ’لسان العرب‘ میں اور ملا علی القاری نے ’عمدۃ القاری‘ میں لکھا ہے:

سند کا لغوی معنی بلند ہونا ہے؛ جیسا کہ کہا جاتا ہے: فلاں شخص پہاڑ کی بلندی پر چڑھا۔

(3) قَالَ الْجَوْهَرِيُّ فِي الصِّحَاحِ وَالْفَیْرُوْزُآبَادِيُّ فِي الْقَامُوْسِ وَالزَّبِیْدِيُّ فِي التَّاجِ:

اَلسَّنَدُ: مَا قَابَلَکَ مِنَ الْجَبَلِ، وَعَلَا عَنِ السَّفْحِ. وَفُـلَانٌ سَنَدٌ: أَي مُعْتَمَدٌ. وَسَنَدْتُ إِلَی الشَّيئِ أَسْنُدُ سُنُوْدًا، وَاسْتَنَدْتُ بِمَعْنًی. وَأَسْنَدْتُ غَیْرِي. وَالْإِسْنَادُ فِي الْحَدِیْثِ: رَفْعُهٗ إِلٰی قَائِلِهٖ.

الجوھري في الصحاح في اللغة، 1: 617، وابن منظور الأفریقي في لسان العرب، 3: 220، والفیروزآبادي في القاموس المحیط، 1: 370، والمرتضی الزبیدي في تاج العروس من جواهر القاموس، 5: 27

(3) امام جوہری نے ’الصحاح فی اللغۃ‘ میں، فیروز آبادی نے ’القاموس المحیط‘ میں اور مرتضی الزبیدی نے ’تاج العروس‘ میں لکھا ہے:

سند سے مراد پہاڑ کا وہ (بلند) حصہ ہے جو آپ کے مقابل ہو اور دامنِ پہاڑ سے بلند ہو۔ فُلاَنٌ سَنَدٌ کا مطلب ہے کہ فلاں قابلِ اعتماد ہے۔ اور سَنَدْتُ إِلَی الشَّيئِ أَسْنُدُ سُنُوْدًا اور اسْتَنَدْتُ کا مطلب ایک ہی ہے یعنی ’میںنے کسی اور کا سہارا لیا‘۔ اور أَسْنَدْتُ غَیْرِي کا مطلب ہے: میں نے کسی اور کو سہارا دیا، بلندی پر چڑھایا وغیرہ۔ اور حدیث کے باب میں ’اسناد‘ کا مطلب ہے: راویوں کا وہ سلسلہ جو حدیث کو اس کے قائلِ اَوّل (یعنی پہلے راوی) تک پہنچانے والا ہو۔

اَلسَّنَدُ وَالإِسْنَادُ اِصْطِلَاحًا

سند اور اِسناد کا اِصطلاحی معنی

(1) قَالَ الصَّنْعَانِيُّ فِي التَّوْضِیْحِ وَالْحُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الطِّیْبِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ:

اَلسَّنَدُ: هُوَ الْإِخْبَارُ عَنْ طَرِیْقِ الْمَتْنِ مِنْ قَوْلِهِمْ (فـُلَانٌ سَنَدٌ)، أَي مُعْتَمَدٌ سُمِّيَ سَنَدًا لِاعْتِمَادِ الْحُفَّاظِ فِي صِحَّةِ الْحَدِیْثِ وَضَعْفِهٖ عَلَیْهِ.

وَأَمَّا الْإِسْنَادُ: فَهُوَ رَفْعُ الْحَدِیْثِ إِلٰی قَائِلِهٖ وَقَدْ یُسْتَعْمَلُ کُلٌّ مِنْهُمَا فِي مَکَانِ الآخَرِ.

الصنعاني في توضیح الأفکار لمعاني تنقیح الأنظار، 1: 7-8، والطیبي في الخلاصة في أصول الحدیث: 33

(1) امام صنعانی نے ’توضیح الأفکار‘ میں اور امام حسین بن عبد اللہ الطیبی نے ’الخلاصۃ في أصول الحدیث‘ میں لکھا ہے:

سند سے مراد: طریقِ متن کے بارے میں خبر دینا ہے، اور یہ عربوں کے قول ’فُـلَانٌ سَنَدٌ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے: فلاں قابلِ اعتماد ہے۔ اسے سند کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ حفاظِ حدیث، حدیث کی صحت اور ضعف میں اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

اور رہا ’اِسناد‘ تو اس سے مراد حدیث کو اس کے قائلِ اَوّل (یعنی پہلے راوی) تک پہنچانا ہے، اور بعض اَوقات یہ دونوں (الفاظ یعنی سند اور اِسناد) ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔

(2) قَالَ الْحَافِظُ بَدْرُ الدِّیْنِ بْنُ جَمَاعَةَ فِي ’الْمَنْهَلِ‘ وَالزَّرْکَشِيُّ فِي ’النُّکَتِ‘:

أَمَّا السَّنَدُ فَهُوَ الإِخْبَارُ عَن طَرِیْقِ الْمَتْنِ، وَهُوَ مَأْخُوْذٌ إِمَّا مِنَ السَّنَدِ، وَهُوَ مَا ارْتَفَعَ وَعَلَا عَنْ سَفْحِ الْجَبَل، لِأَنَّ الْمُسْنِدَ یَرْفَعُهٗ إِلٰی قَائِلِهٖ أَوْ مِنْ قَوْلِهِمْ فُـلَانٌ سَنَدٌ أَيْ مُعْتَمَدٌ. فَسُمِّيَ الْإِخْبَارُ عَنْ طَرِیْقِ الْمَتْنِ سَنَدًا لِاعْتِمَادِ الْحُفَّاظِ فِي صِحَّةِ الْحَدِیْثِ وَضَعْفِهٖ عَلَیْهِ.

وَأَمَّا الْإِسْنَادُ: فَهُوَ رَفْعُ الْحَدِیْثِ إِلٰی قَائِلِهٖ، وَالْمُحَدِّثُوْنَ یَسْتَعْمِلُوْنَ السَّنَدَ وَالْإِسْنَادَ لِشَيئٍ وَاحِدٍ.

بدر الدین بن جماعة في المنهل الروي في مختصر علوم الحدیث النبوي: 29-30، والزرکشي في النکت علی مقدمة ابن الصلاح، 1: 405

(2) امام بدر الدین بن جماعہ ’المنہل الروي في علوم الحدیث النبوي‘ میں اور علامہ زرکشی ’مقدمۃ ابن الصلاح‘ کی شرح ’النکت‘ میں لکھتے ہیں:

سند کا مطلب متن حدیث کے طریق کے بارے میں خبر دینا ہے (کہ وہ متن کن کن راویوں سے ہم تک پہنچا) اور یہ مفہوم یا تو سند سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد وہ جگہ ہے جو دامنِ کوہ سے بلند ہو، کیونکہ مُسْنِد (سند بیان کرنے والا) اس سند کو اوپر پہلے قائل تک پہنچاتا ہے اور بلند کرتا ہے؛ یا یہ عربوں کے قول: ’فُـلَانٌ سَنَدٌ‘ (فلاں قابلِ اِعتماد ہے) سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ متنِ حدیث کے طریق کے مقام کے بارے میں خبر دینا سند کہلاتا ہے، کیونکہ حفاظِ حدیث، حدیث کی صحت اور ضعف کے باب میں اس سند پر ہی اِعتماد کرتے ہیں۔ اور رہا ’اِسناد‘ تو اس سے مراد حدیث کو اس کے اصل قائل تک پہنچانا ہے۔ محدثین اسناد اور سند کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

(3) قَالَ الطِّیْبِيُّ فِي الْخُلاَصَةِ وَالْجَوْهَرِيُّ فِي الصِّحَاحِ وَابْنُ مَنْظُورٍ الْأَفْرِیْقِيُّ فِي اللِّسَانِ وَالزَّبِیْدِيُّ فِي التَّاجِ وَالْمُنَاوِيُّ فِي التَّعَارِیْفِ:

الْإِسْنَادُ في الْحَدِیثِ: رَفْعُهٗ إِلٰی قَائِلِهٖ.

الطیبي في الخلاصة في أصول الحدیث: 33، والجوهري في الصحاح، 1: 617، وابن منظور الأفریقي في لسان العرب، 3: 221، والزبیدي في تاج العروس من جواهر القاموس، 5: 28، والمناوي في التعاریف: 65

(3) علامہ طیبی ’الخلاصۃ‘ میں، جوہری ’الصحاح‘ میں، ابن منظور الافریقی ’لسان العرب‘ میں، زبیدی ’تاج العروس‘ میں اور مناوی اپنی کتاب ’التعاریف‘ میں لکھتے ہیں:

حدیث میں اِسناد کا مطلب حدیث کو (سند کے ذریعے) اس کے پہلے قائل تک پہنچانا ہے۔

(4) قَالَ ابْنُ حَجَرٍ فِي النُّزْهَةِ وَالسَّخَاوِيُّ فِي الْفَتْحِ:

اَلْإِسْنَادُ فِي الاِصْطِلَاحِ: حِکَایَۃُ طَرِیْقِ الْمَتْنِ.

ابن حجر العسقلاني في نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حدیث أهل الأثر: 7، والسخاوي في فتح المغیث شرح ألفیة الحدیث للعراقي، 1: 16

(4) حافظ ابن حجر العسقلانی ’نزہۃ النظر‘ میں اور امام سخاوی ’فتح المغیث‘ میں لکھتے ہیں:

اِصطلاحی طور پر ’اِسناد‘ کا معنی ہے: متنِ حدیث کا طریق (راویوں کا سلسلہ) بیان کرنا۔

(5) وَلَمْ یُفَرِّقْ بَعْضُهُمْ بَیْنَ السَّنَدِ وَالإِسْنَادِ کَمَا قَالَ السُّیُوْطِيُّ فِي أَلْفِیَّةِ الْحَدِیْثِ:

وَالسَّنَدُ: اَلإِخْبَارُ عَنْ طَرِیْقِ مَتْنٍ کَالإِسْنَادِ لَدَی فَرِیْقِ

ألفیۃ السیوطي في علم الحدیث: 3

(5) لیکن بعض علماء کرام نے سند اور اِسناد کے مابین کوئی فرق نہیں کیا، جیسا کہ امام سیوطی نے ’الفیۃ الحدیث‘ میں لکھا ہے:

سند، متن کے طریق کے بارے میں خبر دینا ہے، اور ایک گروهِ محدثین کے ہاں سند اسناد کی طرح ہی ہے (یعنی یہ دونوں مترادف ہیں اور ان کا ایک ہی معنی ہے)۔

(6) قَالَ الإِمَامُ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الأَزْهَرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ:

وَالْمُسْنَدُ مِنَ الْحَدِیْثِ: مَا اتَّصَلَ إِسْنَادُهٗ حَتّٰی یُرْفَعَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ؛ وَالْمُرْسَلُ وَالْمُنْقَطَعُ: مَا لَمْ یَتَّصِلْ.

أبو منصور الأزهري في تهذیب اللغة، 12: 365

(6) امام ابو منصور محمد بن احمد الازہری ’تہذیب اللغۃ‘ میں لکھتے ہیں:

حدیث میں سے مُسْنَد وہ حدیث ہے، جس کی سند حضورنبی اکرم ﷺ تک مرفوع ہونے تک متصل ہو، اور مرسل اور منقطع وہ حدیث ہے جس کی سند متصل نہ ہو۔

(7) قَالَ السَّخَاوِيُّ فِي الْفَتْحِ:

اَلْمُتَّصِلُ الإِسْنَادِ: أَي السَّالِمُ إِسْنَادُهٗ، الَّذِي هُوَ کَمَا قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ النُّخْبَةِ: الطَّرِیْقُ الْمُوْصِلَۃُ إِلَی الْمَتْنِ، مَعَ قَوْلِهٖ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْهُ: أَنَّهٗ حِکَایَۃُ طَرِیْقِ الْمَتْنِ.

السخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 1: 16

(7) امام سخاوی نے ’فتح المغیث‘ میں لکھا ہے:

متصل الاسناد وہ حدیث ہے جس کی سند سالم (یعنی اِنقطاع سے محفوظ اور مکمل) ہو، جیسا کہ ہمارے شیخ نے شرح النخبۃ میں کہا ہے: متن تک پہنچانے والا راستہ (سند کہلاتا ہے) اور انہی سے ایک دوسرے مقام پر یہ قول بھی منقول ہے کہ سند سے مراد متن کا طریق بیان کرنا ہے۔

اَلْمَتْنُ لُغَةً وَاصْطِلَاحًا

متن کا لغوی و اِصطلاحی معنی

(1) قَالَ الطِّیْبِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ:

اَلْمَتْنُ: هُوَ مَا اکْتَنَفَ الصُّلْبَ مِنَ الْحَیَوَانِ وَبِهٖ شُبِّهَ الْمَتْنُ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَتُنَ الشَّيئُ قَوِيَ مَتْنُهٗ، وَمِنْهُ حَبْلٌ مَتِیْنٌ، فَمَتْنُ کُلِّ شَيئٍ مَا یَتَقَوَّمُ بِهٖ ذَلِکَ الشَّيئُ، کَمَا أَنَّ الْإِنْسَانَ یَتَقَوَّمُ بِالظَّهْرِ، وَیَتَقَوّٰی بِهٖ۔ فَمَتْنُ الْحَدِیْثِ أَلْفَاظُهُ الَّتِي تَتَقَوَّمُ بِهَا الْمَعَانِي.

الطیبي في الخلاصة في أصول الحدیث: 33

(1) امام طیبی نے ’الخلاصۃ‘ میں لکھا ہے:

متن سے مراد حیوان کی پشت کا اِحاطہ ہے اور اِسی سے زمین کے سخت حصہ کو تشبیہ دی جاتی ہے، اور مَتُنَ الشَّيئُ سے مراد کسی چیز کا قوی اور مضبوط ہونا ہے۔ اِسی سے حَبْلٌ مَتِیْنٌ یعنی مضبوط رسّی کہا جاتا ہے۔ ہر چیز کے متن سے مراد اس کا وہ حصہ ہے جس سے وہ قائم ہو، جیسا کہ اِنسان اپنی پشت سے قائم ہوتا اور اسی سے مضبوط ہوتا ہے۔ پس متنِ حدیث سے مراد حدیث کے وہ الفاظ ہیں جن سے معانی قائم ہوتے ہیں۔

(2) وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ جَمَاعَةَ فِي الْمَنْهَل:

اَلْمَتْنُ: فَهُوَ فِي اصْطِلَاحِ الْمُحَدِّثِیْنَ مَا یَنْتَهِي إِلَیْهِ غَایَۃُ السَّنَدِ مِنَ الْکَلَامِ، وَهُوَ مَأْخُوْذٌ إِمَّا مِنَ الْمُمَاتَنَةِ وَهِيَ الْمُبَاعَدَۃُ فِي الْغَایَةِ لِأَنَّ الْمَتْنَ غَایَۃُ السَّنَدِ… أَوْ مِنَ الْمَتْنِ وَهُوَ مَا صَلُبَ وَارْتَفَعَ مِنَ الْأَرْضِ… أَوْ مِنْ تَمْتِیْنِ الْقَوْسِ بِالْعَصْبِ، وَهُوَ شَدُّهَا بِهٖ وَإِصْلَاحُهَا.

ابن جماعة في المنهل الروي في مختصر علوم الحدیث النبوي: 29

(2) حافظ ابن جماعہ نے ’المنہل‘ میں کہا ہے:

متن محدثین کی اصطلاح میں وہ شے ہے جس پر سندِ کلام کی غایت کا اختتام ہو، اور یہ یا تو الْمُمَاتَنَۃ سے مأخوذ ہے، اور مُمَاتَنَۃ سے مراد (مقابلہ میں) مقررہ حدود سے دور نکل جانا ہے، کیونکہ متن سند کی غایت ہے… یا یہ مَتَن سے مشتق ہے جس کا معنی زمین کا سخت اور بلند حصہ ہے… یا یہ تَمْتِیْنُ الْقَوْسِ بِالْعَصْبِ سے مأخوذ ہے جس کا مطلب ہے: کمان کو رسی کے ساتھ باندھنا اور سیدھا کرنا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved