اربعین: روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت

صرف اہل سنت شیوخ علم سے اخذ علم کی تاکید اور ان سے اخذ علم کے لیے ضرورت اسناد

اَلْحَثُّ عَلٰی أَخْذِ الْعِلْمِ مِنْ أَھْلِ السُّنَّةِ وَضَرُوْرَۃُ الإِسْنَادِ فِي الْأَخْذِ مِنْهُمْ

صرف اَہلِ سنت شیوخِ علم سے اَخذِ علم کی تاکید اور ان سے اَخذِ علم کے لیے ضرورتِ اِسناد

26. عَنِ الإِمَامِ ابْنِ سِیْرِیْنَ، قَالَ: لَمْ یَکُوْنُوْا یَسْأَلُوْنَ عَنِ الإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ، قَالُوْا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ، فَیُنْظَرُ إِلٰی أَهْلِ السُّنَّةِ فَیُؤْخَذُ حَدِیْثُهُمْ، وَیُنْظَرُ إِلٰی أَهْلِ الْبِدَعِ فَـلَا یُؤْخَذُ حَدِیْثُهُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، المقدمۃ، 1: 15، والترمذي في العلل: 739

امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں: پہلے لوگ سند حدیث کی تحقیق نہیں کرتے تھے لیکن جب فتنوں کا دور آیا تو لوگ (حدیث کی ثقاہت معلوم کرنے کے لیے) مطالبہ کرتے کہ ہمیں اپنے رجالِ حدیث کے نام بیان کرو۔ جس حدیث کی سند میں اہل سنت راوی ہوتے اس سے مروی حدیث کو لے لیا جاتا اور جس کی سند میں اہل بدعت ہوتے اس کی حدیث کو نہ لیا جاتا۔

اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْهُ أَیْضًا، قَالَ: کَانَ فِي الزَّمَنِ الأَوَّلِ النَّاسُ لَا یَسْأَلُوْنَ عَنِ الإِسْنَادِ حَتّٰی وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ سَأَلُوْا عَنِ الإِسْنَادِ لِیُحَدَّثَ حَدِیْثُ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَیُتْرَکَ حَدِیْثُ أَهْلِ الْبِدْعَةِ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ

أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 122

امام محمد بن سیرین سے ہی مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: پہلے زمانہ میں لوگ اِسناد کی صحت کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے، یہاں تک کہ (وضع حدیث کا) فتنہ در آیا۔ جب یہ فتنہ در آیا تو لوگ اسناد کے بارے پوچھنے لگے تاکہ اہل سنت کی حدیث کو آگے روایت کیا جائے اور اہل بدعت کی حدیث کو ترک کیا جائے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْهُ أَیْضًا، قَالَ: کَانُوا لَا یَسْأَلُوْنَ عَنِ الإِسْنَادِ حَتّٰی کَانَ بِآخِرَةٍ، فَکَانُوْا یَسْأَلُوْنَ عَنِ الإِسْنَادِ لِیَنْظُرُوْا، فَمَنْ کَانَ صَاحِبَ سُنَّةٍ کَتَبُوْا عَنْهُ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبَ سُنَّةٍ لَمْ یَکْتُبُوا عَنْهُ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 122

امام ابن سیرین سے یہ بھی مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: اوائل دور میں لوگ اسناد کے بارے میں نہیں پوچھا کرتے تھے، یہاں تک کہ اس دور کا آخری زمانہ آیا (جب فتنہ وضعِ حدیث وقوع پذیر ہوگیا) تو اہل علم اسناد کے بارے میں پوچھنے لگے تاکہ (صحیح اور غلط میں) جانچ پڑتال کر سکیں۔ جو صاحبِ سنت ہوتا تو اس سے حدیث لکھ لیتے اور جو صاحبِ سنت نہ ہوتا اس سے حدیث نہ لکھتے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ رَجَبٍ، قَالَ: إِنَّ هٰذَا الْحَدِیْثَ دِیْنٌ، فَلْیَنْظُرِ الرَّجُلُ عَمَّنْ یَأْخُذُ دِیْنَهٗ.

ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 18

ابن رجب حنبلی کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ امام ابن سیرین نے فرمایا: یہ حدیث سراسر دین ہے۔ پس انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنا دین کس سے لے رہا ہے۔

وَعَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ: أَنَّهٗ کَانَ إِذَا حَدَّثَهُ الرَّجُلُ بِالْحَدِیْثِ یُنْکِرُهٗ لَمْ یُقْبِلْ عَلَیْهِ ذٰلِکَ الإِقْبَالَ، ثُمَّ یَقُوْلُ لَهٗ: إِنِّي لَا أَتَّهِمُکَ وَلَا أَتَّهِمُ ذَاکَ، وَلٰـکِنْ لَا أَدْرِي مَنْ مُلَیِّنُکَ.

رَوَاهُ الْعُقَیْلِيُّ وَابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ العقیلي في الضعفاء، 1: 12، وابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 22

امام محمد بن سیرین کے بارے میں مروی ہے کہ جب کوئی شخص انہیں ایسی حدیث روایت کرتا جسے وہ منکر (غیر معروف) سمجھتے تو وہ اس کی طرف کوئی خاص رغبت نہ دکھاتے۔ پھر وہ اس حدیث کو بیان کرنے والے سے کہتے: نہ میں تجھے تہمت لگاتا ہوں اور نہ ہی اس حدیث کو، لیکن میں نہیں جانتا تمہیں (روایت کے معاملہ میں) کس نے نرم بنا دیا ہے (کہ تم اسناد کی تنقیح کے بغیر روایت کو قبول کرکے آگے بیان کر رہے ہو)۔

اسے عقیلی اور ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلٰی أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ فِي مَرَضِهٖ، فَقَالَ: اتَّقُوا اللهَ، یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، وَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ هٰذِهِ الأَحَادِیْثَ، فَإِنَّهَا مِنْ دِیْنِکُمْ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 122، وابن أبي حاتم الرازي في الجرح والتعدیل، 1: 1: 15-16، وابن حبان في المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 22

حماد بن زید سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اَنس بن سیرین کے پاس ان کے مرضِ وصال میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا: اے گروهِ نوجواناں! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ غور کرو کہ یہ احادیث کس سے لے رہے ہو (یعنی ان کا سماع اور اَخذ و قبول کن سے کر رہے ہو) کیونکہ یہ تمہارا دین ہیں۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

27. رَوَی الإِمَامُ أَحْمَدُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ نُوْحٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِیْمَ، قَالَ: إِنَّمَا سُئِلَ عَنِ الإِسْنَادِ أَیَّامَ الْمُخْتَارِ.

رَوَاهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 18

امام احمد بن حنبل نے جابر بن نوح سے، انہوں نے اَعمش سے، انہوںنے ابراہیم سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے: مختار ثقفی کے دورِ حکومت میں علم و خبر کے حوالے سے ثقہ اور غیر ثقہ میں تمیز کی خاطراِسناد کے بارے میں چھان بین شروع ہو گئی تھی۔

اسے ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

28. وَذُکِرَ لِحَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ بِأَحَادِیْثَ، فَقَالَ: مَا أَجْوَدَهَا لَوْ کَانَ لَهَا أَجْنِحَةٌ یَعْنِي الأَسَانِیْدَ.

ذَکَرَهُ السَّخَاوِيُّ.

ذکرہ السخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 3: 4

امام سخاوی روایت کرتے ہیں: حماد بن زید کے سامنے کچھ احادیث بیان کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: یہ احادیث کتنی اچھی ہیں، کاش ان کے پَر بھی ہوتے یعنی (احادیث کی) اسانید بھی ساتھ ہوتیں۔

اسے امام سخاوی نے ذکر کیا ہے۔

29. قَالَ مَطَرٌ فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰی: {اَثٰـرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ}(1) قَالَ: إِسْنَادُ الْحَدِیْثِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

(1) الأحقاف، 46: 4

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 23، وذکرہ السیوطي في تدریب الراوي، 2: 160

حافظ ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے کہ مطر نے اللہ تعالیٰ کے قول - {اَثٰـرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ} ’(اگلوں کے) علم کا بقیہ حصہ‘ - کے بارے میں فرمایا ہے: اس سے مراد احادیث کی اسانید ہیں۔

اسے ابن رجب حنبلی نے ذکر کیا ہے۔

30. قَالَ یَعْقُوبُ بْنُ شَیْبَةَ: قُلْتُ لِیَحْیَی بْنِ مَعِیْنٍ: تَعْرِفُ أَحَداً مِنَ التَّابِعِیْنَ کَانَ یَنْتَقِي الرِّجَالَ کَمَا کَانَ ابْنُ سِیْرِیْنَ یَنْتَقِیْهِمْ؟ فَقَالَ بِرَأْسِهٖ، أَي: لَا.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 18

یعقوب بن شیبہ بیان کرتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا: کیا آپ کسی تابعی کو جانتے ہیں جو راویوں کو اس طرح (چھان بین کر کے) چنتا ہو، جس طرح امام محمد بن سیرین چنتے تھے؟ انہوں نے (نفی میں) اپنا سر ہلا کر کہا: نہیں۔

اسے ابن رجب حنبلی نے ذکر کیا ہے۔

31. رَوَی ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَا تَسْمَعُوْا مِنْ أَهْلِ الأَهْوَائِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجہ ابن أبي حاتم في الجرح والتعدیل، 2: 33، وذکرہ ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 19

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں: خواہش پرست یعنی لالچی لوگوں سے علم و روایت کا سماع نہ کیا کرو۔

اسے ابن ابی حاتم رازی اور ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved