اربعین: روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت

نااہل شخص سے علم لینے کی ممانعت

مَنْعُ أَخْذِ الْعِلْمِ عَنْ غَیْرِ أَھْلِهٖ

نااَہل شخص سے علم لینے کی ممانعت

37. عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ، قَالَ: قِیْلَ لِأَبِي بَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ: إِنَّ أٌنَاساً یَجْلِسُوْنَ وَیَجْلِسُ إِلَیْهِمُ النَّاسُ وَلاَ یَسْتَأْهِلُوْنَ. قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ: کُلُّ مَنْ جَلَسَ جَلَسَ النَّاسُ إِلَیْهِ، وَصَاحِبُ السُّنَّةِ إِذَا مَاتَ أَحْیَی اللهُ ذِکْرَهٗ، وَالْمُبْتَدِعُ لاَ یُذْکَرُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

أخرجہ الترمذي في العلل الصغیر: 739

امام ترمذی نے یحییٰ بن آدم سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش سے کہا گیا: بے شک بعض لوگ (مسندِ علم پر) بیٹھتے ہیں اور لوگ بھی سیکھنے کے لیے ان کے پاس بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ اس چیز کے اہل نہیں ہوتے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس پر ابوبکر بن عیاش نے کہا: ہر وہ شخص جو (مسندِ علم پر) بیٹھا ہو اور لوگ بھی اس کے پاس (حصولِ علم کے لیے) بیٹھتے ہوں اس سے وہ معتمد اور ثقہ عالم نہیں قرار پاتا۔ اللہ تعالی صاحبِ سنت و سیرت عالم کا ذکر (اُس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی) زندہ رکھتا ہے جب کہ بدعتی کا ذکر (پسِ مرگ) ختم جاتا ہے۔

اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

38. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیِٔ، عَنِ ابْنِ لَهِیْعَةَ، أَنَّهٗ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ رَجَعَ عَنْ بِدْعَتِهٖ، وَجَعَلَ یَقُوْلُ: انْظُرْ هٰذَا الْحَدِیْثَ عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَهٗ، فَإِنَّا کُنَّا إِذَا رَأَیْنَا رَأْیًا جَعَلْنَاهُ حَدِیْثًا.

رَوَاهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 19

ابو عبد الرحمن المقری، ابن لہیعہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اَہلِ بدعت لوگوں میں سے ایک شخص کو سنا جو اپنی بدعت سے رجوع کر چکا تھا۔ وہ کہنے لگا: حدیث کے بارے میں خوب غور کرو کہ یہ کس سے لے رہے ہو، بے شک ہم (یعنی اَہلِ بدعت و ہواء اپنے دورِ فتن میں) علم کے باب میں جب کوئی رائے سنتے تھے تو اسے حدیث قرار دے دیتے تھے، (اس لیے راوی کے بارے میں خوب تحقیق کر لیا کرو کہ کہیں وہ اَہلِ بدعت و فتنہ میں سے تو نہیں ہے)۔

اسے ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

39. رَوَی ابْنُ حِبَّانَ بِإِسْنَادِهٖ عَنْ بَهْزِ بْنِ أَسَدٍ، قَالَ: لَو أَنَّ لِرَجُلٍ عَلٰی رَجُلٍ دَرَاهِمَ، ثُمَّ جَحَدَهٗ أَخَذَهَا مِنْهُ إِلاَّ بِشَاهِدَیْنِ عَدْلَیْنِ، فَدِیْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ یُؤْخَذَ فِیْهِ بِالْعَدُوْلِ.

ذکرہ ابن حبان في المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 23، وابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 15

امام ابن حبان اپنی سند کے ساتھ بہز بن اسد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: اگر کسی شحص کے کسی دوسرے شحص کے ذمے کچھ درہم ہوں، اور وہ شحص (دینے سے) انکار کر دے تو (دراہم کا مالک) اس سے دو عادل گواہوں کی شہادت کے ساتھ اپنے درہم واپس لے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کا دین (قرض کے درہموں سے) زیادہ حق دار ہے کہ یہ بڑے عادل لوگوں سے حاصل کیا جائے۔

40. عَنْ یَحْیٰی، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ یَقُوْلُ: إِنَّمَا یُعْلَمُ صِحَّۃُ الْحَدِیْثِ بِصِحَّةِ الإِسْنَادِ.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجہ ابن عبد البر في التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید، 1: 57، وابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 21

یحییٰ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے شعبہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ بے شک حدیث کی صحت کا علم، اِسناد کی صحت کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

اسے ابن عبد البر اور ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

41. عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: کُلُّ حَدِیْثٍ لَیْسَ فِیْهِ ’حَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا‘، فَهُوَ مِثْلُ الرَّجُلِ بِالْفَـلَاةِ مَعَهُ الْبَعِیْرُ لَیْسَ لَهٗ خِطَامٌ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الْمَجْرُوْحِیْنَ.

ذکرہ ابن حبان في المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 27، وابن الأثیر الجزري في جامع الأصول في أحادیث الرسول ﷺ، 1: 74

شعبہ کا قول ہے: ہر وہ حدیث جس میں حدثنا یا أخبرنا کے الفاظ نہ ہوں وہ اس شخص کی طرح ہے جو ویران اور بنجر زمین پر ہو اور اس کے پاس اس کا اونٹ بغیر لگام کے ہو۔

اسے ابن حبان نے ’المجروحین‘ میں روایت کیا ہے۔

وَعَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: مَا ذَهَابُ الْعِلْمِ إِلاَّ ذَهَابُ الإِسْنَادِ.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجہ ابن عبد البر في التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید، 1: 57، وابن رجب الحنبلي في شرح علل الترمذي: 21

امام اوزاعی فرماتے ہیں: علم کا ختم ہو جانا، اِسناد کے ختم ہو جانے سے ہی عبارت ہے۔

اسے ابن عبد البر اور ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنِ الإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: الْحَدِیْثُ إِذَا لَمْ تُجْمَعْ طُرُقُهٗ لَمْ تَفْهَمْهُ، وَالْحَدِیْثُ یُفَسِّرُ بَعْضُهٗ بَعْضًا.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 2: 212، الرقم: 1640

امام احمد بن حنبل کا قول ہے: جب تک حدیث کے تمام طرق کو جمع کرکے نہ دیکھا جائے، آپ اس حدیث کا حکم صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے، اور بعض احادیث، دیگر کی تفسیر کرتی ہیں اور یوں سب روایات کو اکٹھا دیکھنے سے صحیح اور پورا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: احْفَظْ، لَا یَجُوْزُ أَنْ یَکُونَ الرَّجُلُ إِمَامًا حَتّٰی یَعْلَمَ مَا یَصِحُّ مِمَّا لَا یَصِحُّ، وَحَتّٰی لَا یَحْتَجَّ بِکُلِّ شَيْئٍ، وَحَتّٰی یَعْلَمَ مَخَارِجَ الْعِلْمِ.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجہ البیہقي في المدخل إلی السنن الکبری: 179، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء، 9: 3، وذکرہ شرح علل الترمذي لابن رجب: 78، والذہبي في تاریخ الإسلام، 13: 282

عبد الرحمن بن مہدی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: یہ بات یاد رکھو کہ، آدمی کے لیے اس وقت تک امام (یعنی علم میں پیشوا اور مقتدا) بننا جائز نہیں، جب تک اسے صحیح اور غیر صحیح کی پہچان نہ ہو جائے، اور جب تک وہ ہر علمی اَمر سے دلیل اَخذ کرنے کے قابل نہ ہو جائے، اور جب تک وہ علم کے سرچشموں جملہ مصادر اور مآخد سے آگاہ نہ ہو جائے۔

اسے امام بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ: لاَ تَنْظُرُوْا إِلَی الْحَدِیْثِ، وَلٰـکِنِ انْظُرُوْا إِلَی الإِسْنَادِ، فَإِنْ صَحَّ الإِسْنَادُ؛ وَإِلاَّ فَلاَ تَغْتَرَّ بِالْحَدِیْثِ إِذَا لَمْ یَصِحَّ الإِسْنَادُ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 2: 201، الرقم: 1301

یحییٰ بن سعید نے فرمایا کہ متن حدیث کی طرف نہ دیکھو بلکہ حدیث کی سند کی طرف دیکھو۔ اگر سند صحیح ہے تو حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس حدیث پر نہ اِتراؤ جس کی سند صحیح نہیں ہے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِیْمَ الْحَنْظَلِيِّ، قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ طَاهِرٍ إِذَا سَأَلَنِي عَنِ الْحَدِیْثِ فَذَکَرْتُهٗ بِلاَ إِسْنَادٍ سَأَلَنِي عَنِ إِسْنَادِهٖ، وَیَقُوْلُ: رِوَایَۃُ الْحَدِیْثِ بِلاَ إِسْنَادٍ مِنْ عَمَلِ الذِّمِّيِّ، فَإِنَّ إِسْنَادَ الْحَدِیْثِ کَرَامَةٌ مِنَ اللهِ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ.

رَوَاهُ التَّمِیْمِيُّ السَّمْعَانِيُّ.

ذکرہ السمعاني في أدب الإملاء والاستملاء: 6

اسحاق بن ابراہیم حنظلی بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن طاہر جب مجھ سے حدیث کے بارے میں دریافت کرتے، تو میں انہیں سند کے بغیر ہی متنِ حدیث بیان کر دیتا، پھر وہ مجھ سے اس کی سند کے بارے میں پوچھتے اور کہتے: بلا سند روایتِ حدیث غیر مسلموں کا شیوہ ہے، کیونکہ حدیث کی سند صرف اُمت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے، (یہ شیوہ اور طریقہ پہلی اُمتوں میں موجود نہ تھا)۔

اسے امام تمیمی سمعانی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ، قَالَ: یَنْبَغِي لِصَاحِبِ الْحَدِیْثِ أَنْ یَکُوْنَ مِثْلَ الَّذِي یَنْتَقِدُ الدَّرَاهِمَ، فَإِنَّ الدَّرَاهِمَ فِیْهَا الزَّیْفُ وَالْبَهْرَجُ، وَکَذٰلِکَ الْحَدِیْثُ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 2: 102، الرقم: 1302

عمرو بن قیس بیان کرتے ہیں: صاحبِ حدیث کے لیے مناسب ہے کہ وہ دراہم کے کھرے کھوٹے کو جاننے والے کی طرح ہو، کیونکہ دراہم کھوٹے اور جعلی بھی ہوتے ہیں اور یہی مثال حدیث کی ہے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِیْنِيِّ: الْبَابُ إِذَا لَمْ تُجْمَعْ طُرُقُهٗ لَمْ یَتَبَیَّنْ خَطَؤُهٗ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع، 2: 212، الرقم: 1641، وذکرہ السیوطي في تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي، 1: 253

امام علی بن مدینی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب تک کسی بابِ حدیث کے تمام طرق اکٹھے سامنے موجود نہ ہوں، اس روایت کی خطا واضح نہیں ہوتی۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

وَقَالَ الْقَاضِي عِیَاضٌ فِي الإِلْمَاعِ: اعْلَمْ أَوَّلًا أَنَّ مَدَارَ الْحَدِیْثِ عَلَی الإِسْنَادِ فِیْهِ، فَبِهٖ تَتَبَیَّنُ صِحَّتُهٗ وَیَظْهَرُ اتِّصَالُهٗ.

قالہ القاضي عیاض في الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ وتقیید السماع، باب رفع الإسناد في القراء ۃ والتخریج والعمل فیہ: 194

قاضی عیاض اپنی کتاب ’الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ وتقیید السماع‘ میں کہتے ہیں: آپ سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ حدیث کا مدار سند پر ہوتا ہے، اس کے ذریعے حدیث کی صحت و ثقاہت واضح ہوتی ہے اور اسی سے حدیث کے متصل ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

وَقَالَ ابْنُ الْأَثِیْرِ الْجَزَرِيُّ فِي الْجَامِعِ: اعْلَمْ أَنَّ الْإِسْنَادَ فِي الْحَدِیْثِ هُوَ الْأَصْلُ، وَعَلَیْهِ الْاِعْتِمَادُ، وَبِهٖ تُعْرَفُ صِحَّتُهٗ وَسُقْمُهٗ.

قالہ ابن الأثیر الجزري في جامع الأصول في أحادیث الرسول ﷺ، 1: 74

امام ابن الاثیر الجزری ’جامع الاصول‘ میں لکھتے ہیں: (اے اَہلِ علم! اس حقیقت پر) آگہی حاصل کرلو کہ علمِ حدیث میں اِسناد ہی (قبول اور عدمِ قبول کی) بنیاد اور معیارہے، اور اسی پر حدیث کا مدار ہے، اور اسی کے ذریعے حدیث کی صحت اور سقم کو پہچانا جاتا ہے۔

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُوْ زُرْعَةَ الْعِرَاقِيُّ: الْحَدِیْثُ إِذَا جُمِعَتْ طُرُقُهٗ تَبَیَّنَ الْمُرَادُ مِنْهُ، وَلَیْسَ لَنَا أَنْ نَتَمَسَّکَ بِرِوَایَةٍ وَنَتْرُکَ بَقِیَّةَ الرِّوَایَاتِ.

قالہ أبو زرعۃ العراقي في طرح التثریب في شرح التقریب، 7: 169

حافظ ابو زُرعہ عراقی نے کہا ہے کہ جب حدیث کے تمام طرق جمع ہو جائیں، تب اس کی مراد واضح ہو جاتی ہے، اور ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی روایت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور باقی تمام روایات کو چھوڑ دیں۔

وَعَنْ إِبْرَاهِیْمَ، قَالَ: کَانُوْا إِذَا أَرَادُوا أَنْ یَأْخُذُوْا عَنِ الرَّجُلِ، نَظَرُوا إِلٰی صَلَاتِهٖ وَإِلٰی هَیْئَتِهٖ وَإِلٰی سَمْتِهٖ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ الرَّازِيُّ.

ذکرہ ابن أبي حاتم الرازي في الجرح والتعدیل، 1: 1: 16

ابراہیم سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: جب اَئمہ حدیث کسی شخص سے روایت لینے کا ارادہ کرتے تو اس کی نمازکو، اس کی ہیئت و شخصیت کو اور عوام میں اس کی شہرت و سیرت کو دیکھتے تھے۔

اسے ابن ابی حاتم رازی نے روایت کیا ہے۔

وَعَنْ مُغِیْرَةَ، قَالَ: کُنَّا إِذَا أَتَیْنَا الرَّجُلَ لِنَأْخُذَ عَنْهُ نَظَرْنَا إِلٰی سَمْتِهٖ وَإِلٰی صَلَاتِهٖ، ثُمَّ أَخَذْنَا عَنْهُ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.

ذکرہ ابن حبان في المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 23

مغیرہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: جب ہم کسی شخص کے پاس روایت لینے کے لیے آتے تو ہم پہلے اس کی شہرت و سیرت کو اور اس کی نماز اور طرزِ عبادت کو دیکھتے، پھر اس سے روایت لیتے تھے۔

اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved