Falsafa-e-Sawm

باب 7 :رمضان المبارک میں اکابر اسلاف کے معمولات

آج سے کچھ عرصہ قبل رمضان المبارک میں اہل مکہ اور اہل مدینہ کے معمولات نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتے تھے‘ لیکن امتدادِ زمانہ سے وہ سب اقدار زوال پذیر ہو چکی ہیں اور عبادت کا جوش و خروش قصہ ماضی بن چکا ہے۔

اہل مکہ کے معمولات رمضان المبارک

کتبِ تاریخ و سیر میں اہل مکہ کے معمولات رمضان المبارک کے باب میں ان کے نماز تراویح ادا کرنے کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے‘ ان کا انداز یہ تھا کہ وہ ہر چار رکعت ادا کرنے کے بعد طوافِ کعبہ کرتے اور ہر طواف کے سات چکروں کے دوران تسبیحات پڑھتے اور طواف مکمل کرنے کے بعد مقامِ ابراہیم پر دوگانہ نفل ادا کرتے۔ اس طرح بیس تراویح کی رکعتوں کے ساتھ اضافی طور پر پانچ مرتبہ طواف و تسبیحات کے علاوہ دس رکعت نفل زائد ادا کرتے۔ اہل مکہ کا شغف عبادت اور والہانہ پن اپنی مثال آپ تھا۔

اہل مدینہ کے معمولات رمضان المبارک

اہل مدینہ کے معمولات رمضان کا ذکر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بطور خاص کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق وہ ہر چار رکعت کے بعد کمال ذوق و شوق اور اطمینان و یکسوئی سے کلمات تسبیح و استغفار پڑھتے اور ہر ترویحے کے اختتام پر چار رکعت نفل کا اضافہ کر لیتے۔ اس طرح وہ تراویح کی بیس رکعتوں کے علاوہ سولہ رکعت نفل اضافی طور پر ادا کر کے کل چھتیس رکعت ادا کرتے۔ کتبِ تاریخ میں ان کے اس عمل کو ستہ عشریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اہل مدینہ کے ان معمولات پر ایک طویل عرصہ تک ائمہ امت اور ان کے متبعین عمل پیرا رہے۔ وہ کتنا ایمان پرور اور بصیرت افروز منظر ہو گا‘ جب لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے روضہ اطہر کے سامنے حضوری قلب اور والہانہ انہماک سے رات گئے تک عبادت اور ذکر و فکر میں مشغول رہتے ہوں گے ۔

آہ! محفل سے پرانے بادہ کش رخصت ہوئے

افسوس صد افسوس کہ امتداد زمانہ کے ساتھ معاملہ کی بساط یکسر پلٹ چکی ہے۔ وہ سب معمولات جن کا ذکر اہل مکہ و اہل مدینہ کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے تک ان پر عمل ہوتا رہا‘ پھر اس کے بعد امت پر انحطاط و ادبار کے سائے چھانے لگے تو جہاں زندگی کے ہر شعبے میں بے عملی کا جمود اور نحوست طاری ہو گئی‘ وہاں عبادات و دینی معاملات میں وہ روحانی جوش ‘ ذوق وولولہ اور انہماک و استغراق نہ رہا۔ نوافل اور دعا و مناجات ترک کر دینے کا رجحان عام پایا جاتا ہے۔ ہمارے واعظینِ قوم میں الا ماشاء اللہ وہ برقِ طبعی اور شعلہ مقالی نہیں اور ان میں کردار کا وہ جوہر نہیں‘ جو ہمارے اسلاف کا طرہ امتیاز تھا۔ اب دین محض ظواہر پرستی کا نام بن کر رہ گیا ہے اور بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

ہم میں عظمت و شوکت رفتہ کے سب آثار رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

نماز تراویح اور حضرت عائشہ صدیقہ کا معمول

خواتین بھی اگر نماز تراویح باجماعت ادا کرنا چاہیں تو وہ اپنے طور پر کسی قاری کو مقرر کر کے اس کی اقتداء میں نماز ادا کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنے غلام حضرت ذکوان رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح ادا فرمایا کرتی تھیں۔

ایک غلام کے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نماز ادا کرنا انسانیت کے لئے کتنا انقلاب آفریں درس ہے۔ اسلام نے آقائیت اور خواجگی کے تمام بت پاش پاش کر دیئے اور انسانی مساوات کی وہ روح پرور اور بصیرت افروز مثالیں پیش کیں کہ آج کی نام نہاد مہذب‘ متمدن اور ترقی یافتہ دنیااس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔

رمضان المبارک میں ہمارا معمول … ایک لمحہ فکریہ

رمضان المبارک کی ہر ہر ساعت ہمارے لئے سعادتوں کی پیامبر اور خدائے ذوالجلال کی بے پایا رحمتوں کی نوید بن کر آتی ہے‘ لیکن کیا ہم ان سے مستفیض ہو کر اپنے لئے اخروی نجات اور کامیابی کا توشہ و سامان فراہم کرتے ہیں؟ کیا ہم اس ماہ مقدس کے شب و روز کے سعید لمحوں کو غنیمت جان کر اپنی عاقبت سنوارنے کا اہتمام کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنا چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک کا حق کہاں تک ادا کر پاتے ہیں۔

ہمیں اپنا یہ معمول بنانا چاہئے کہ جب ہم سحری کے لئے بیدار ہوں تو باوضو ہو کر کچھ وقت نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے نکالیں اور پھر پورا ماہ اس کی پابندی کے لئے کوشاں رہیں۔ کیا بعید ہے کہ اس مشق سے ہماری نماز تہجد کی عادت مداومت اختیار کر جائے اور ہماری بقیہ زندگی میں تہجد کا معمول اس قدر راسخ ہو جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ ہو سکے۔

رمضان المبارک کو یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد کے درمیان سونے کا وقفہ بھی شامل عبادت تصور کر لیاجاتا ہے۔ گویا اس مقدس اور مبارک مہینے کی ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہو کر نامہ اعمال میں بطور عبادت لکھ دی جاتی ہے۔

نماز تہجد اور صلحائے امت

یوں تو نفلی عبادتیں اور بھی ہیں‘ جن کا اپنا درجہ ہے‘ لیکن قرب الٰہی کے اعتبار سے جو مقام نماز تہجد کو حاصل ہے وہ کسی بھی اور عبادت کو نصیب نہیں۔ جب ساری خدائی خواب شیریں کے مزے لے رہی ہوتی ہے تو اللہ کا بندہ محض اپنے رب کی رضا کے لئے رات کی نیند اور آرام کو چھوڑ کر بارگاہِ ایزدی میں قیام اور سجدہ ریزیاں کرتا ہے اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کی بخشش و معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ خلوت کی ان ساعتوں میں بندے کو اپنے رب سے جو قرب نصیب ہوتا ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی وقت کی کسی اور گھڑی میں نصیب نہیں ہوتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ اور ان کے متبعین‘ جملہ اولیاء عرفا اور مشائخ کے ہاں شب بیداری اور نماز تہجد کی ادائیگی ہمیں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتی ہے۔ اللہ کے ان سب برگزیدہ بندوں کے احوال میں مذکور ہے کہ وہ رات کو دیر تک نوافل اور نماز تہجد میں مشغول رہتے تھے۔ تہجد کے بغیر کوئی مقامِ ولایت پر فائز نہیں ہو سکتا اور جس کی تین تہجد نمازیں پے در پے قضا ہو جائیں‘ اس سے مقام ولایت سلب کر لیا جاتا ہے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر خلافت کی ذمہ داریوں کا بار عظیم تھا ۔ وہ دن بھر امور مملکت‘ رعایا کی خبر گیری اور ان کی حاجت برداری میں مصروف رہتے اور ان کی راتیں اپنے رب کے ذکر و فکر‘ قیام و سجود اور گریہ و زاری میں بسر ہوتیں۔ گویا نہ دن کو آرام اور نہ رات کو سکون و قرار نصیب ہوتا۔ کسی نے پوچھا حضرت شب و روز یہ اضطراب و التہاب اور بے سکونی و بے آرامی کس لئے؟ آپ کے جسم و جان کا بھی آپ پر کچھ حق ہے۔

یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں دن میں آرام کرنے لگوں تو رعایا کے حال سے بے خبر ہو جائوں اور رات کو چین کی نیند سوؤں تو خدا کی یاد سے غافل قرار پائوں۔ یہ دونوں حالتیں مجھے گوارا نہیں ہیں‘ اس لئے میرے دن خلق خدا کے لئے اور راتیں ذات کبریا کے لئے وقف ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved