اربعین: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انبیاء اور اولیاء و صالحین سے کلام کرنا

اللہ تعالیٰ کا انبیاء کرام علیہم السلام سے کلام فرمانا

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ الأَنْبِیَاءِ علیهم السلام

اللہ تعالیٰ کا انبیاء کرام علیہم السلام سے کلام فرمانا

اَلْقُرْآن

(1) تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍم مِنْهُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ.

(البقرة، 2: 253)

یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اللہ نے (براهِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)۔

(2) وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ ط اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌo

(الشوریٰ، 42: 51)

اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براهِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بے شک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ آدَمَ علیه السلام

اَلْقُرْآن

(1) قَالَ یٰـاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْ ج فَـلَمَّآ اَنْبَاَھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo

(البقرة، 2: 33)

اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔

(2) وَقُلْنَا یٰٓـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُـلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَـاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَـاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْهِ ص وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍo فَتَلَقّٰیٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ط اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (البقرة، 2: 35-38)

اور ہم نے حکم دیا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لیے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہے۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لیے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ہم نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

(3) وَ یٰٓـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلآَّ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰـلِدِیْنَo وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَo فَدَلّٰهُمَا بِغُرُوْرٍج فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ط وَنَادٰهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍo قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرَجُوْنَo

(الأعراف، 7: 19-25)

اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ (دونوں) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور (بس) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا !) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لیے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤ گے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے (یعنی اس مقامِ قرب سے کبھی محروم نہیں کیے جاؤ گے)۔ اور ان دونوں سے قٔسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تمہارے خیرخواہوں میں سے ہوں۔ پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرمگاہیں ان کے لیے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔ دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ ارشادِ باری ہوا: تم (سب) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں اور تمہارے لیے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات (مقرر کر دیے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا جا رہا ہے، اس پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا)۔ ارشاد فرمایا: تم اسی (زمین) میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مرو گے اور (قیامت کے روز) اسی میں سے نکالے جاؤ گے۔

(4) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط اَبٰیo فَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَـلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰیo اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَلَا تَعْرٰیo وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَلَا تَضْحٰیo فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطَنُ قَالَ یٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰیo فَاَکلَاَ مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ز وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰیo ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدٰیo قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًام بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ هُدًی لا فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَـلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰیo

(طٰه، 20: 116-123)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: تم آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا۔ پھر ہم نے فرمایا: اے آدم! بے شک یہ (شیطان) تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، سو یہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مشقت میں پڑ جاؤ گے۔ بے شک تمہارے لیے اس (جنت) میں یہ (راحت) ہے کہ تمہیں نہ بھوک لگے گی اور نہ برہنہ ہوگے۔ اور یہ کہ تمہیں نہ یہاں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائے گی۔ پس شیطان نے انہیں (ایک) خیال دلا دیا وہ کہنے لگا: اے آدم! کیا میں تمہیں (قربِ الٰہی کی جنت میں) دائمی زندگی بسر کرنے کا درخت بتا دوں اور (ایسی ملکوتی) بادشاہت (کا راز) بھی جسے نہ زوال آئے گا نہ فنا ہوگی۔ سو دونوں نے (اس مقامِ قربِ الٰہی کی لازوال زندگی کے شوق میں) اس درخت سے پھل کھا لیا پس ان پر ان کے مقام ہائے سَتَر ظاہر ہوگئے اور دونوں اپنے (بدن) پر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگذاشت ہوئی (کہ ممانعت مخصوص ایک درخت کی تھی یا اس کی پوری نوع کی تھی، کیوں کہ آپ علیہ السلام نے پھل اس مخصوص درخت کا نہیں کھایا تھا بلکہ اسی نوع کے دوسرے درخت سے کھایا تھا، یہ سمجھ کر کہ شاید ممانعت اسی ایک درخت کی تھی) سو وہ (جنت میں دائمی زندگی کی) مراد نہ پا سکے۔ پھر ان کے رب نے انہیں (اپنی قربت و نبوت کے لیے) چن لیا اور ان پر (عفو و رحمت کی خاص) توجہ فرمائی اور منزلِ مقصود کی راہ دکھا دی۔ ارشاد ہوا: تم یہاں سے سب کے سب اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے، پھر جب میری جانب سے تمہارے پاس کوئی ہدایت (وحی) آجائے، سو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو وہ نہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدنصیب ہوگا۔

اَلْحَدِیْث

1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَ نَفَخَ فِیْهِ الرُّوْحَ عَطَسَ. فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ. فَحَمِدَ اللهَ بِإِذْنِهٖ. فَقَالَ لَهٗ رَبُّهٗ: یَرْحَمُکَ اللهُ، یَا آدَمُ. اِذْهَبْ إِلٰی أُوْلٰئِکَ الْمَلَائِکَةِ إِلٰی مَلَإٍ مِنْهُمْ جُلُوْسٍ، فَقُلْ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ. قَالُوْا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللهِ. ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی رَبِّهٖ. فَقَالَ: إِنَّ هٰذِهٖ تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ بَنِیْکَ بَیْنَهُمْ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، 5: 453، الرقم: 3368، والنسائي في السنن الکبری، 6: 63، الرقم: 10046-10048، والحاکم في المستدرک، 1: 132، الرقم: 214

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی، انہوں نے ’الحمد للہ‘ کہا اور اس کے حکم سے اس کی تعریف کی۔ ان کے رب نے انہیں فرمایا: یَرْحَمُکَ اللهُ۔ اے آدم! تم ان فرشتوں کی طرف جاؤ۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے۔ انہیں کہو: ’السلام علیکم‘۔ فرشتوں نے کہا: ’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ‘۔ پھر وہ اپنے رب کے پاس آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کا سلام ہے۔

اسے امام ترمذی، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

2. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِیْئَةَ، قَالَ: یَا رَبِّ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِي. فَقَالَ اللهُ: یَا آدَمُ، وَکَیْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ: یَا رَبِّ، لِأَنَّکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِیَدِکَ، وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوْحِکَ، رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَیْتُ عَلٰی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ. فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَیْکَ. فَقَالَ اللهُ: صَدَقْتَ یَا آدَمُ، إِنَّهٗ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، اُدْعُنِي بِحَقِّهٖ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الْإِسْنَادِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2: 672، الرقم: 4228، والبیهقي في دلائل النبوة، 5: 489، والقاضي عیاض في الشفا: 227، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 7: 437، وذکره ابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعاء: 130، الرقم: 206، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 1: 131، 2: 291، 1: 6، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 6.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاهِ الٰہی میں) عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ سے محمد (ﷺ) کے وسیلے سے درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! آپ نے محمد (ﷺ) کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! جب آپ نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق فرمایا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ} لکھا ہوا دیکھا۔ تو مجھے معلوم ہو گیاکہ آپ کے نام کے ساتھ اُسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا ہے، مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اُن کے وسیلہ سے مجھ سے دعا مانگو۔ میں نے تمہیں معاف فرما دیا ہے اور اگر محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آپ کو بھی پیدا نہ کرتا۔

اسے امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

3. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ علیه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهٗ، رَفَعَ رَأْسَهٗ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَی اللهُ إِلَیْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَرَأَیْتُ فِیْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ لَیْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهٗ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اللهُ تعالیٰ إِلَیْهِ: یَا آدَمُ، إِنَّهٗ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهٗ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ، یَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 2: 182، الرقم: 992، وأیضًا في المعجم الأوسط، 6: 313، الرقم: 6502، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8: 253، والسیوطي في جامع الأحادیث، 11: 94.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام سے (غیر اِرادی) لغزش سرزد ہوئی تو اُنہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کیا: (یا اللہ!) میں (تجھ سے، تیرے محبوب) محمد (مصطفی ﷺ ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام بابرکت ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا؛ وہاں میں نے {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ} لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ تیرے ہاں اِس ہستی سے بڑھ کر کوئی قدر و منزلت والا نہیں، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی اُمت بھی تمہاری نسل کی آخری اُمت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی آدَمَ علیه السلام: یَا آدَمُ، مَنْ أَحَبَّ حَبِیْبًا صَدَّقَ قَوْلَهٗ، وَمَنْ أَنَسَ بِحَبِیْبِهٖ رَضِيَ فِعْلَهٗ، وَمَنِ اشْتَاقَ إِلَیهِ جَدَّ فِي مَسِیْرِهٖ.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تهذیب الأسرار: 68.

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے آدم! جو شخص کسی کو محبوب بنا لیتاہے تو اُس کی (ہر) بات کی (قولاً و عملاً) تصدیق کرتا ہے،جو شخص اپنے محبوب سے مانوس ہوتا ہے تو اُس کے ہر فعل پر راضی رہتا ہے اور جو شخص اس سے ملنے کا مشتاق ہوتا ہے تو وہ جادۂ محبوب پر گامزن ہو جاتا ہے۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ إِبْرَاهِیْمَ علیه السلام

اَلْقُرْآن

(1) وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی ط وَعَهِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِo

(البقرة، 2: 125)

اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔

(2) وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo

(البقرة، 2: 260)

اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

(3) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰـاِبْرٰهِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَا ج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُo وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍo

(الصافات، 37: 102-107)

پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام ) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے۔ پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا (اگلا منظر بیان نہیں فرمایا)۔ اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!۔ واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)۔ بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔

اَلْحَدِیْث

4. عَنْ سَعِیْدٍ، أَنَّ إِبْرَاهِیْمَ علیه السلام أَوَّلُ مَنْ رَأَی الشَّیْبَ، فَقَالَ: یَا رَبِّ، مَا هٰذَا؟ قَالَ: اَلْوَقَارُ. قَالَ: یَا رَبِّ، زِدْنِي وَقَارًا.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 6: 331، الرقم: 31832، والبخاري في الأدب المفرد: 428، الرقم: 1250، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 6: 200، وذکرہ النووي في تهذیب الأسماء واللغات، 1: 114، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 1: 175.

حضرت سعید سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنا بڑھاپا (سفید بالوں کو) دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا: اے پروردگار! یہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ وقار (کی علامت) ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب میرے وقار میں اور اضافہ فرما۔

اسے امام ابن ابی شبیہ نے اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

5. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَوْحَی اللهُ إِلٰی إِبْرَاهِیْمَ: یَا خَلِیْلِي، حَسِّنْ خُلُقَکَ وَلَوْ مَعَ الْکَافِرِ، تَدْخُلُ مَدْخَلَ الْأَبْرَارِ، فَإِنَّ کَلِمَتِي سَبَقَتْ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُهٗ أَنْ أُظِلَّهٗ تَحْتَ عَرْشِي، وَأَنْ أَسْقِیَهٗ مِنْ حَظِیْرَةِ قُدْسِي، وَأَنْ أُدْنِیَهٗ مِنْ جِوَارِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْقَزْوِیْنِيُّ وَالْحَکِیْمُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6: 315، الرقم: 6506، والقزویني في التدوین في أخبار قزوین، 2: 331، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول في أحادیث الرسول ﷺ، 3: 97، والدیلمي في مسند الفردوس، 1: 139-140، الرقم: 494، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 6: 224-225.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے میرے خلیل! اپنے خلق کو نہایت حسین رکھو خواہ کسی کافر کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، تم نیکو کاروں کے ٹھکانے میں داخل ہو جاؤ گے۔ بلاشبہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ ’میں اچھے اخلاق کے حامل شخص کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دوں گا، اسے اپنی بارگاهِ خاص (کے چشمے) سے پلاؤں گا اور اُسے اپنے قربِ (خاص) سے نوازوں گا‘۔

اسے امام طبرانی، قزوینی، حکیم ترمذی، دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، إِنَّ إِبْرَاهِیْمَ علیہ السلام سَأَلَ رَبَّهٗ تعالیٰ، قَالَ: یَا رَبِّ، مَا جَزَاءُ مَنْ حَمِدَکَ؟ قَالَ: الْحَمْدُ مِفْتَاحُ الشُّکْرِ وَخَاتَمُ الشُّکْرِ، وَالْحَمْدُ یَعْرُجُ بِهٖ إِلٰی عَرْشِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.

رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَذَکَرَهُ الْهِنْدِيُّ.

أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 1: 223، الرقم: 857، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 6: 242، وعزاہ الهندي إلی الدیلمي في کنز العمال، 1: 238، الرقم: 2042.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ربّ کی بارگاہ میں عرض کیا: اے پروردگار! تیری حمد کرنے والے کی جزا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’حمد‘ شکر کی چابی اور شکر کی مہر ہے۔ ’حمد‘ بندے کو رب العالمین کے عرش کی طرف عروج دلاتی ہے۔

اسے امام دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور ہندی نے بیان کیا ہے۔

قَالَ إِبْرَاهِیْمُ علیہ السلام: إِلٰهِيْ، لَوْلَا أَنْتَ کَیْفَ کُنْتُ أَعْرِفُ مَنْ أَنْتَ؟

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالۃ أهل الحقیقة مع الله: 53.

سیدناابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: یا اللہ! اگر تیرا کرم نہ ہوتا تو میں تیری عظمت کو کیسے پہچان پاتا؟

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ أَیُّوبَ علیه السلام

اَلْقُرْآن

وَاذْکُرْ عَبْدَنَـآ اَیُّوبَ م اِذْ نَادٰی رَبَّهٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍo اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ج هٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌo وَ وَهَبْنَا لَهٗٓ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِo وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْ ط اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ط نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّهٗٓ اَوَّابٌo

(صٓ، 38: 41-44)

اور ہمارے بندے ایّوب (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے بڑی اذیّت اور تکلیف پہنچائی ہے۔ (ارشاد ہوا:) تم اپنا پاؤں زمین پر مارو، یہ (پانی کا) ٹھنڈا چشمہ ہے نہانے کے لیے اور پینے کے لیے۔ اور ہم نے اُن کو اُن کے اہل و عیال اور اُن کے ساتھ اُن کے برابر (مزید اہل و عیال) عطا کر دیے، ہماری طرف سے خصوصی رحمت کے طور پر، اور دانشمندوں کے لیے نصیحت کے طور پر۔ (اے ایوب!) تم اپنے ہاتھ میں (سَو) تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور (اپنی قسم پوری کرنے کے لیے) اس سے (ایک بار اپنی زوجہ کو) مارو اور قسم نہ توڑو، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا، (ایّوب علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا۔

اَلْحَدِیْث

7. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: بَیْنَا أَیُّوْبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا فَخَرَّ عَلَیْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ أَیُّوْبُ یَحْتَثِي فِي ثَوْبِهٖ فَنَادَاهُ رَبُّهٗ: یَا أَیُّوْبُ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرٰی؟ قَالَ: بَلٰی، وَعِزَّتِکَ، وَلٰـکِنْ لَا غِنٰی بِي عَنْ بَرَکَتِکَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الغسل، باب من اغتسل عریانا وحده في الخلوة ومن تستر فالتستر أفضل، 1: 107، الرقم: 275، وأیضًا في کتاب الأنبیاء، باب قول الله تعالی:{وأیوب إذ نادی ربه}، 3: 1240، الرقم: 3211، وأیضًا في کتاب التوحید، باب قول الله تعالی {ویریدون أن یبدلوا کلام الله}، 6: 2723، الرقم: 7055، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 314، الرقم: 8144، والنسائي في السنن، کتاب الغسل والتیمم، باب الاستتار عند الاغتسال، 1: 200، الرقم: 409.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مرتبہ حضرت ایوب علیہ السلام بے لباسی کی حالت میں (کسی بند اور محفوظ جگہ پر) غسل فرما رہے تھے تو ان پر (مزید پردہ کرنے کے لیے) سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام انہیں اپنے کپڑے میں جمع فرمانے لگے۔ ان کے رب نے انہیں ندا دی: اے ایوب! کیا میں نے تجھے اس سے بے نیاز نہیں کر دیا جو کچھ تو دیکھ رہا ہے؟ وہ عرض گزار ہوئے: کیوں نہیں! تیری عزت کی قسم! میں (دنیا سے ضرور بے نیاز ہوں مگر) ہرگز تیری برکت سے بے نیاز نہیں ہوں۔

اسے امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

8. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أُمْطِرَ عَلٰی أَیُّوْبَ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ. وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: فَرَاشٌ. فَجَعَلَ یَلْتَقِطُهٗ. فَقَالَ: یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَیْکَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ، وَمَنْ یَشْبَعُ مِنْ رَحْمَتِکَ؟ أَوْ قَالَ: مِنْ فَضْلِکَ: قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: قَالَ: بَلٰی وَلٰـکِنْ لَا غِنًی بِي عَنْ فَضْلِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّیَالِسِيُّ وَالْحُمَیْدِيُّ، وَرَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ نَحْوَهٗ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 304، 511، الرقم: 8025، 10646، والطیالسي في المسند، 1: 322، الرقم: 2455، والحمیدي في المسند، 2: 457، الرقم: 1060، والحاکم في المستدرک، 2: 636، الرقم: 4116، والطبراني فی المعجم الأوسط، 3: 75، الرقم: 2533، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1: 44، وذکره ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3: 190.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک مرتبہ حضرت ایوب علیہ السلام پر سونے کی ٹڈیاں بصورتِ بارش برسنے لگیں (حدیث مبارکہ کے ایک راوی عبد الصمد کا کہنا ہے کہ تتلیاں برسنے لگیں)۔ حضرت ایوب علیہ السلام ٹڈیوں کو جمع فرمانے لگے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایوب! کیا میں نے تمہیں رزق میں فراخی عطا نہیں فرمائی؟ وہ عرض گزار ہوئے: اے پروردگار! (بے شک ایسا ہی ہے مگر) تیری رحمت اور فضل سے کون سیر ہو سکتا ہے؟ راوی عبد الصمد کا کہنا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے عرض کیا: کیوں نہیں! لیکن تیرے فضل سے میری بے نیازی کیسے ممکن ہے؟

اسے امام احمد، طیالسی اور حمیدی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ یُونُسَ علیه السلام

اَلْقُرْآن

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ لا وَنَجَّیْنٰهُ مِنَ الغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَo

(الأنبیاء، 21: 87-88)

اور ذو النون (مچھلی کے پیٹ والے نبی علیہ السلام کو بھی یاد فرمائیے) جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہو کر چل دیے پس انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم ان پر (اس سفر میں) کوئی تنگی نہیں کریں گے پھر انہوں نے (دریا، رات اور مچھلی کے پیٹ کی تہہ در تہہ) تاریکیوں میں (پھنس کر) پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔

اَلْحَدِیْث

9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی علیه السلام، عَلَیْهِ عِبَاءَ تَانِ قِطْوَانِیَّتَانِ، یُلَبِّي؛ تُجِیْبُهُ الْجِبَالُ. وَاللهُ تَعَالٰی یَقُولُ لَهٗ: لَبَّیْکَ یَا یُوْنُسُ، هَا أَنَا مَعَکَ.

رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَذَکَرَهُ الْهِنْدِيُّ.

أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 3: 281، الرقم: 4848، وعزاه الهندي إلی الدارقطني في کنز العمال، 11: 236، الرقم: 32424.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں یونس بن متّٰی علیہ السلام کو (گویا اس حال میں) دیکھ رہا ہوں کہ ان پر دو قطوانی چادریں ہیں اور وہ تلبیہ (لبیک اللّھم لبیک) کہہ رہے ہیں، اور پہاڑ اُنہیں (ان کلمات کا) جواب دے رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے فرما رہا ہے: اے یونس! میں تمہارا تلبیہ سن رہا ہوں، یہ دیکھو میں تمہارے ساتھ ہوں۔

اسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے اور ہندی نے بیان کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ مُوْسٰی علیه السلام

اَلْقُرْآن

(1) وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰـھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ ط وَکَلَّمَ اللهُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo

(النساء، 4: 164)

اور (ہم نے کئی) ایسے رسول (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم (اس سے) پہلے آپ کو سنا چکے ہیں اور (کئی) ایسے رسول بھی (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم نے (ابھی تک) آپ کو نہیں سنائے اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔

(2) قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ زصلے فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَo

(الأعراف، 7: 144)

ارشاد ہوا: اے موسیٰ! بے شک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ۔

(3) وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰـمُوْسٰیo قَالَ هِیَ عَصَایَ ج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰیo قَالَ اَلْقِهَا یٰـمُوْسٰیo فَاَلْقٰهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰیo قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْقف سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰیo وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ اٰ یَةً اُخْرٰیo لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰـتِنَا الْکُبْرٰیo اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰیo

(طٰه، 20: 17-24)

اور یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ اے موسی!۔ انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور میں اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے کئی اور فائدے بھی ہیں۔ ارشاد ہوا: اے موسیٰ! اسے (زمین پر) ڈال دو۔ پس انہوں نے اسے (زمین پر) ڈال دیا تو وہ اچانک سانپ ہوگیا (جو ادھر ادھر) دوڑنے لگا۔ ارشاد فرمایا: اسے پکڑلو اور مت ڈرو ہم اسے ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ اور (حکم ہوا) اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبالو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید چمکدار ہوکر نکلے گا (یہ) دوسری نشانی ہے۔ یہ اس لیے (کر رہے ہیں) کہ ہم تمہیں اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہے۔

(4) وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَا مُوْسٰیo قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰیo

(طٰه، 20: 83-84)

اور اے موسیٰ! تم نے اپنی قوم سے (پہلے طور پر آ جانے میں) جلدی کیوں کی۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: وہ لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے (غلبۂ شوق و محبت میں) تیرے حضور پہنچنے میں جلدی کی ہے اے میرے رب! تاکہ تو راضی ہوجائے۔

(5) اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَهْلِهٖٓ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا ط سَاٰتِیْکُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَo فَلَمَّا جَآئَهَا نُوْدِیَ اَنْم بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ط وَسُبْحٰنَ اللهِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَo یٰمُوْسٰٓی اِنَّهٗٓ اَنَا اللهُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo وَاَلْقِ عَصَاکَ ط فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ کَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط یٰمُوْسٰٓی لَا تَخَفْقف اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَo اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا م بَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ قف فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo فَلَمَّا جَآئَتْهُمْ اٰیٰـتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌo وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَo

(النمل، 27: 7-14)

(وہ واقعہ یاد کریں) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا مجھے ایک آگ میں شعلہ انس و محبت نظر آیا ہے)، عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لاتا ہوں (جس کے لیے مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں) یا تمہیں (بھی اس میں سے) کوئی چمکتا ہوا انگارا لا دیتا ہوں تاکہ تم (بھی اس کی حرارت سے) تپ اٹھو۔ پھر جب وہ اس کے پاس آپہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے جو اس آگ میں (اپنے حجاب نور کی تجلی فرما رہا) ہے اور وہ (بھی) جو اس کے آس پاس (اُلوہی جلووں کے پر تو میں) ہے، اور اللہ (ہر قسم کے جسم و مثال سے) پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اے موسیٰ! بے شک وہ (جلوہ فرمانے والا) میں ہی اللہ ہوں جو نہایت غالب حکمت والا ہے۔ اور (اے موسیٰ!) اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو، پھر جب (موسیٰ نے لاٹھی کو زمین پر ڈالنے کے بعد) اسے دیکھا کہ سانپ کی مانند تیز حرکت کر رہی ہے تو (فطری رد ِعمل کے طور پر) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا (ارشاد ہوا): اے موسیٰ! خوف نہ کرو بے شک پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے۔ مگر جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد (اسے) نیکی سے بدل دیا تو بے شک میں بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ اور تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکدار (ہو کر) نکلے گا (یہ دونوں اللہ کی) نو نشانیوں میں (سے) ہیں۔ (انہیں لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ بے شک وہ نافرمان قوم ہیں۔ پھر جب ان کے پاس ہماری نشانیاں واضح اور روشن ہو کر پہنچ گئیں تو وہ کہنے لگے کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اور انہوں نے ظلم اور تکبّر کے طور پر ان کا سراسر انکار کر دیا حالاں کہ ان کے دل ان (نشانیوں کے حق ہونے) کا یقین کر چکے تھے۔ پس آپ دیکھئے کہ فساد بپا کرنے والوں کا کیسا (بُرا) انجام ہوا۔

(6) فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَھْلِهٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا ج قَالَ لِاَھْلِهِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَo فَلَمَّآ اَتٰـھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَکَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللهُ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَo وَاَنْ اَلْقِ عَصَاکَ ط فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ کَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَلاَ تَخَفْ قف اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَo اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ ز وَّاضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِکَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِهٖ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِo وَاَخِیْ ھٰرُوْنُ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْٓ ز اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِo قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰـنًا فَـلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا ج بِاٰیٰـتِنَآ ج اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰـلِبُوْنَo فَلَمَّا جَآئَهُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰـتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَo وَ قَالَ مُوْسٰی رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰی مِنْ عِنْدِهٖ وَمَنْ تَکُوْنُ لَهٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ط اِنَّهٗ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَo

(القصص، 28: 29-37)

پھر جب موسیٰ (علیہ السلام)نے مقررہ مدت پوری کرلی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂِ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی) انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میںنے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لیے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادئ(طور) کے دائیں کنارے سے با برکت مقام میں (واقع) ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ! بے شک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)۔ اور یہ کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے دیکھا کہ وہ تیز لہراتی تڑپتی ہوئی حرکت کر رہی ہے گویا وہ سانپ ہو، تو پیٹھ پھیر کر چل پڑے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، (ندا آئی) اے موسیٰ! سامنے آؤ اور خوف نہ کرو، بے شک تم امان یافتہ لوگوں میں سے ہو۔ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکدار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو‘ پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لیے) ہیں، بے شک وہ نافرمان لوگ ہیں۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گے۔ اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام)، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں سو انہیں میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرسکیں میں اس بات سے (بھی) ڈرتا ہوں کہ (وہ) لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ ارشاد فرمایا: ہم تمہارا بازو تمہارے بھائی کے ذریعے مضبوط کردیں گے۔ اور ہم تم دونوں کے لیے (لوگوں کے دلوں میںاورتمہاری کاوشوں میں) ہیبت و غلبہ پید اکیے دیتے ہیں۔ سو وہ ہماری نشانیوں کے سبب سے تم تک (گزند پہنچانے کے لیے)نہیں پہنچ سکیں گے‘ تم دونوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے غالب رہیں گے۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری واضح او ر روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو من گھڑت جادو کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔ اور ہم نے یہ باتیں اپنے پہلے آباء و اجداد میں (کبھی) نہیں سنی تھیں۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور اس کو (بھی) جس کے لیے آخرت کے گھر کا انجام(بہتر) ہوگا، بے شک ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔

اَلْحَدِیْث

10. عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبَکَالِيَّ یَزْعُمُ أَنَّ مُوْسٰی صَاحِبَ الْخَضِرِ لَیْسَ هُوَ مُوْسٰی بَنِي إِسْرَائِیلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسٰی آخَرُ. فَقَالَ: کَذَبَ عَدُوُّ اللهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ مُوْسٰی قَامَ خَطِیْبًا فِي بَنِي إِسْرَائِیلَ، فَسُئِلَ: أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا. فَعَتَبَ اللهُ عَلَیْهِ إِذْ لَمْ یَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَیْهِ. فَقَالَ لَهٗ: بَلٰی لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَیْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ. قَالَ: أَيْ رَبِّ، وَمَنْ لِي بِهٖ؟ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ: أَيْ رَبِّ، وَکَیْفَ لِي بِهٖ؟ قَالَ: تَأْخُذُ حُوْتًا فَتَجْعَلُهٗ فِي مِکْتَلٍ حَیْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب حدیث الخضر مع موسی علیہما السلام، 3: 1246، الرقم: 3219، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب من فضائل الخضر علیه السلام، 4: 1847، الرقم: 2380، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 118، الرقم: 21155، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الکهف، 5: 309، الرقم: 3149.

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں عرض کیا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے والے موسیٰ وہ نہیں ہیں جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے بلکہ یہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اس خدا کے دشمن نے غلط بیانی کی ہے۔ ہم سے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے (براہ راست) سن کر یہ حدیث بیان فرمائی کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی نے ان سے سوال کیا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا: میں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کی جانب منسوب نہیں کیا تھا۔ اس پر (اللہ تعالیٰ نے) ان سے فرمایا: اچھا (اے موسیٰ)! دو دریاؤں کے سنگم پر ہمارا ایک بندہ رہتا ہے جو تم سے بھی زیادہ صاحبِ علم ہے۔ وہ عرض گزار ہوئے: اے پروردگار! مجھے اس بندے تک کون پہنچائے گا؟ شاید سفیان نے یہ الفاظ روایت کیے: اے پروردگار! میں اس تک کیسے پہنچوں گا؟ فرمایا: تم ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈال لو، جہاں تم مچھلی نہ پاؤ، میرا وہ بندہ وہیں ہوگا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

11. عَنِ الشَّعْبِيِّ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ الْمُغِیرَةَ بْنَ شُعْبَةَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَرْفَعُهٗ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ، یَقُوْلُ: إِنَّ مُوسٰی علیه السلام سَأَلَ رَبَّهٗ فَقَالَ: أَي رَبِّ، أَيُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَدْنٰی مَنْزِلَةً؟ قَالَ: رَجُلٌ یَأْتِي بَعْدَ مَا یَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَیُقَالُ لَهٗ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ۔ فَیَقُولُ: کَیْفَ أَدْخُلُ وَقَدْ نَزَلُوْا مَنَازِلَهُمْ وَأَخَذُوْا أَخَذَاتِهِمْ؟ قَالَ: فَیُقَالُ لَهٗ: أَتَرْضٰی أَنْ یَکُونَ لَکَ مَا کَانَ لِمَلِکٍ مِنْ مُلُوْکِ الدُّنْیَا؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، أَي رَبِّ، قَدْ رَضِیْتُ. فَیُقَالُ لَهٗ: فَإِنَّ لَکَ هٰذَا وَمِثْلَهٗ وَمِثْلَهٗ وَمِثْلَهٗ. فَیَقُوْلُ: رَضِیْتُ، أَي رَبِّ. فَیُقَالُ لَهٗ: فَإِنَّ لَکَ هٰذَا وَعَشْرَةَ أَمْثَالِهٖ. فَیَقُوْلُ: رَضِیْتُ، أَي رَبِّ. فَیُقَالُ لَهٗ: فَإِنَّ لَکَ مَعَ هٰذَا مَا اشْتَهَتْ نَفْسُکَ وَلَذَّتْ عَیْنُکَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب أدنی أهل الجنة منزلة فیها، 1: 176، الرقم: 189، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، ومن سورة السجدة، 5: 347، الرقم: 3198، وابن حبان في الصحیح، 14: 99، الرقم: 6216، وابن منده في الإیمان، 2: 821، الرقم: 845، وأبو عوانة في المسند، 1: 118، الرقم: 353، والحمیدي في المسند، 2: 335، الرقم: 761.

شعبی بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور آپ نے منبر پر تشریف فرما ہوتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ سے مرفوع حدیث بیان کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے عرض کیا: اے میرے رب! سب سے کم درجے والا جنتی کون ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص جو تمام جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد آخر میں آئے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا (جنت میں) داخل ہو جا۔ وہ کہے گا: کیسے داخل ہوں جبکہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ چکے اور انہوں نے جو کچھ لینا تھا وہ لے لیا؟ (اب تو کوئی بھی جگہ نہیں بچی ہوگی) اس سے کہا جائے گا: کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تیرے لیے جنت میں اتنی وسعت ہو، جتنی کسی دنیوی بادشاہ کے لیے ہوتی ہے؟ وہ عرض کرے گا: ہاں، اے رب! مجھے پسند ہے۔ پھر اسے کہا جائے گا: تیرے لیے اُتنا مقرر کر دیا ہے اور مزید اس کے برابر۔ (ایسا تین مرتبہ فرمایا یعنی تین گنا مزید ہے۔) وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں۔ کہا جائے گا: تجھے یہ سب کچھ اور دس گنا مزید بھی دیا جائے گا۔ وہ عرض کرے گا: یا اللہ! میں راضی ہوں۔ پھر کہا جائے گا: اس کے علاوہ تجھے وہ کچھ بھی ملے گا جو تیرا جی چاہے اور جس سے تیری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں (گویا جنت میں کم ترین درجہ بھی دنیا کی بادشاہتوں سے زیادہ وسعت اور عظمت والا ہوگا)۔

اِسے امام مسلم، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ امام ترمذی کے ہیں اور امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

12. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: سَأَلَ مُوْسٰی رَبَّهٗ عَنْ سِتِّ خِصَالٍ … قَالَ: یَا رَبِّ، أَيُّ عِبَادِکَ أَتْقٰی؟ قَالَ: الَّذِي یَذْکُرُ وَلَا یَنْسٰی. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَهْدٰی؟ قَالَ: الَّذِي یَتْبَعُ الْهُدٰی. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَحْکُمُ؟ قَالَ: الَّذِي یَحْکُمُ لِلنَّاسِ کَمَا یَحْکُمُ لِنَفْسِهٖ. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَعْلَمُ؟ قَالَ: عَالِمٌ لَا یَشْبَعُ مِنَ الْعِلْمِ، یَجْمَعُ عِلْمَ النَّاسِ إِلٰی عِلْمِهٖ. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَعَزُّ؟ قَالَ: الَّذِي إِذَا قَدَرَ غَفَرَ. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَغْنٰی؟ قَالَ: الَّذِي یَرْضٰی بِمَا یُؤْتٰی. قَالَ: فَأَيُّ عِبَادِکَ أَفْقَرُ؟ قَالَ: صَاحِبٌ مَنْقُوْصٌ. قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ ظَهْرٍ، إِنَّمَا الْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْرًا جَعَلَ غِنَاهُ فِي نَفْسِهٖ وَتُقَاهُ فِي قَلْبِهٖ، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ شَرًّا جَعَلَ فَقْرَهٗ بَیْنَ عَیْنَیْهِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارِمِيُّ مُخْتَصَرًا وَذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.

12: أخرجه ابن حبان في الصحیح، کتاب التاریخ، باب ذکر سؤال کلیم الله ربه عن خصال سبع، 14: 100-101، الرقم: 6217، والدارمي عن عطاء بالاختصار في السنن، 1: 114، الرقم: 362، والهیثمي في موارد الظمآن، 1: 50.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ربّ سے چھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا … آپ نے عرض کیا: اے میرے رب! تیرے بندوں میں سے کون زیادہ متقی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ جو مجھے (ہمہ وقت) یاد رکھتا ہے اور مجھے کبھی بھلاتا نہیں۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوں میں کون زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ فرمایا: جو (ہمیشہ) ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوں میں کون زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا ہے؟ فرمایا: جو لوگوں کے لیے بھی ایسا ہی فیصلہ کرتا ہے جیسا اپنے لیے کرتا ہے۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوں میں بڑا عالم کون ہے؟ فرمایا: وہ عالم جو کبھی علم سے سیر نہیں ہوتا اور (دوسرے اَہلِ علم) لوگوں کے علم کو بھی اپنے علم کے ساتھ جمع کرتا رہتا ہے (یعنی دیگر اَہلِ علم سے استفادہ کو عار نہیں سمجھتا اور ہر وقت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے)۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوں میں کون زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جسے بدلہ لینے پر قدرت حاصل ہو، تب بھی معاف کر دے۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوں میں زیادہ مال دار کون ہے؟ فرمایا: جسے جس قدر ملے وہ اُسی پر راضی ہو جائے۔ پھر عرض کیا: تیرے بندوںمیں زیادہ فقیر کون ہے؟ فرمایا: وہ شخص جس کی نیکیاں (حقوق العباد کا بدلہ ادا کرتے کرتے) کم رہ جائیں گی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امیری یہ نہیں کہ بندے کے پاس مال ہو، بلکہ اصل امیری یہ ہے کہ بندے کا نفس بے نیاز ہو جائے، جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو غنیٰ(یعنی بے نیازی) اُس کے نفس میں ڈال دیتا ہے اور تقویٰ اس کے دل میں ڈال دیتا ہے؛ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی نہیں کرنا چاہتا تو غریبی اس کی نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے (یعنی ہر وقت اُسے غریب ہونے کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور وہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے)۔

اسے امام ابن حبان نے، دارمی نے مختصراً اور ہیثمی نے بیان کیا ہے۔

13. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا کَلَّمَ اللهُ مُوْسٰی، کَانَ یُبْصِرُ دَبِیْبَ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا فِي الَّلیْلَةِ الظَّلْمَاءِ مِنْ مَسِیْرَةِ عَشْرَةِ فَرَاسِخَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 1: 65، الرقم: 77، والدیلمي في مسند الفردوس، 3: 424، الرقم: 5301، وذکره ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2: 247، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8: 203.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تو وہ تاریک رات میں دس فرسخ (تقریباً تیس میل) کی مسافت سے چٹان پر چیونٹی کا رینگنا (یعنی چلنا) دیکھ لیتے تھے (یہ نورِ الٰہی کی اِنعکاسی تجلیّات کا اثر تھا جس نے آپ کی بصارت میں اِس قدر اضافہ فرما دیا تھا)۔

اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَبِي الْحُوَیْرِثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُعَاوِیَةَ قَالَ: مَکَثَ مُوْسٰی علیه السلام بَعْدَ أَنْ کَلَّمَهُ اللهُ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا لَا یَرَاهُ أَحَدٌ إِلَّا مَاتَ مِنْ نُوْرِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2: 629، الرقم: 4101، وعبد الله بن أحمد في السنة، 2: 278، الرقم: 1097، وابن معین في التاریخ (روایة الدوري)، 3: 183، الرقم: 824، وذکره الذھبي في میزان الاعتدال، 4: 319، 7: 15.

حضرت ابو حویرث عبد الرحمن بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے بعد چالیس دن تک ایک جگہ ٹھہرے رہے (کیوں کہ) جو بھی اُن کو دیکھتا تھا وہ اللہ رب العالمین کے نور کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو جاتا تھا (سو آپ علیہ السلام نے اس وجہ سے چالیس دن لوگوں سے دور، خلوت میں گزارے تاکہ وقت گزرنے سے آپ کے چہرۂ انور پر انوارِ الٰہیہ کا پرتو، قابلِ برداشت ہو سکے۔ گویا اس عرصہ میں انوار اندر جذب ہو جائیں)۔

اِسے امام حاکم اور عبد اللہ بن اَحمد نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي بَعْضِ الْکُتُبِ الَّتِي أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ، إِنَّ اللهَ قَالَ لِمُوْسٰی: أَتَدْرِي لِأَيِّ شَيئٍ کَلَّمْتُکَ؟ قَالَ: لِأَيِّ شَيئٍ؟ قَالَ: لِأَنِّي اطَّلَعْتُ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَلَمْ أَرَ قَلْبًا أَشَدَّ حُبًّا لِي مِنْ قَلْبِکَ.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَذَکَرَهُ الذَّهَبِيُّ.

أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 61: 52-53، وذکره الذهبي في تاریخ الإسلام، 25: 325.

ایک روایت میں وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں: میں نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی آسمانی کتاب میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کس سبب سے تمہیں شرفِ کلام بخشا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: (باری تعالیٰ! ارشاد فرما) کس سبب سے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس لیے کہ میں نے (اس زمانے میں تمام) بندوں کے دلوں کا حال دیکھا اور میں نے کوئی دل ایسا نہیں پایا جو تمہارے دل سے زیادہ میری محبت میں گرفتار ہو۔

اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور ذہبی نے بیان کیا ہے۔

14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ لِمُوْسٰی علیه السلام: هَلْ یُصَلِّي رَبُّکَ؟ فَقَالَ مُوْسٰی: اِتَّقُوا اللهَ یَا بَنِي إِسْرَائِیْلَ. فَقَالَ اللهُ لِمُوْسٰی: مَاذَا قَالَ لَکَ قَوْمُکَ؟ قَالَ: یَا رَبِّي، مَا قَدْ عَلِمْتَ؟ قَالُوْا: هَلْ یُصَلِّي رَبُّکَ؟ قَالَ: فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ صَلَاتِي عَلٰی عِبَادِي أَنْ تَسْبِقَ رَحْمَتِي غَضَبِي، لَوْلَا ذٰلِکَ لَأَهْلَکْتُهُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حَیَّانَ وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالدَّیْلَمِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1: 42، الرقم: 114، وابن حیان في العظمة، 2: 452-453، الرقم: 22، وابن المبارک في الزهد: 370، الرقم: 1051، والدیلمي في مسند الفردوس، 3: 197، الرقم: 4553، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 10: 121-122، الرقم: 121، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 61: 157.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا: کیا آپ کا ربّ بھی نماز پڑھتا ہے؟ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اے بنی اسرائیل! اللہ سے ڈرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: آپ کی قوم نے آپ سے کیا کہا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: (اے میرے رب! وہی) جو تجھے معلوم ہے؟ انہوں نے کہا تھا: کیا آپ کا ربّ بھی نماز پڑھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انہیں بتا دو کہ میری صلوٰۃ میرے بندوں پر یہی ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آ جائے، اگر ایسا نہ ہوتا تو میں (ان کے گناہوں کے سبب) اُن سب کو ہلاک کر دیتا۔

اسے امام طبرانی، ابن حیان، ابن المبارک، دیلمی، مقدسی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے، جب کہ الفاظ ابن المبارک کے ہیں۔

وَفِي رِوَایَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه: قَالَ مُوْسٰی: یَا رَبِّ، وَدِدْتُ أَنِّي أَعْلَمُ مَنْ تُحِبُّ مِنْ عِبَادِکَ فَأُحِبُّهٗ. قَالَ: إِذَا رَأَیْتَ عَبْدِي کَثَّرَ ذِکْرِي فَأَنَا أَذِنْتُ لَهٗ فِي ذٰلِکَ وَأَنَا أُحِبُّهٗ، وَإِذَا رَأَیْتَ عَبْدِي لَا یَذْکُرُنِي فَأَنَا حَجَبْتُهٗ عَنْ ذٰلِکَ وَأَنَا أُبْغِضُهٗ.

رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 3: 192، الرقم: 4534، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 61: 147، وذکره الهندي في کنز العمال، 1: 221، الرقم: 1870، وأیضَا،2: 107، الرقم: 3923.

ایک روایت میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تیرے بندوں میں سے کون تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تاکہ میں بھی اس سے محبت کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم میرے کسی بندے کو کثرت سے میرا ذکر کرتے دیکھو تو (جان لو کہ) میں نے ہی اسے اس کی اجازت دی ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ اور جب تم دیکھو کہ میرا کوئی بندہ مجھے یاد نہیں کرتا تو (جان لو کہ) میں نے ہی اپنے اور اس کے درمیان حجاب حائل کر دیا ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتا۔

اسے امام دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

قَالَ مُوْسٰی علیه السلام ذَاتَ یَوْمٍ: إِلٰهِي، أَقَرِیْبٌ أَنْتَ فَأُنَاجِیْکَ، أَمْ بَعَیْدٌ فَأُنَادِیْکَ فَقَالَ اللهُ تَعَالٰی: أَنَا جَلِیْسٌ لِمَنْ ذَکَرَنِي، وَقَرِیْبٌ مِمَّنْ أَنَسَ بِي، أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع الله: 91-92.

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک روز عرض کیا: میرے معبود! آیا تو قریب ہے کہ میں تجھ سے راز و نیاز کے انداز میں باتیں کروں، یا بعید ہے کہ میں تجھے (بہ آوازِ بلند) پکاروں؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو مجھے یاد کرے میں اُس کا ہم نشین ہوں اور جو مجھ سے مانوس ہو میں اُس سے قریب ہوں، حتیٰ کہ اُس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ مُوْسٰی علیه السلام قَالَ فِي بَعْضِ مُنَاجَاتِهٖ: یَا رَبِّ، عَجِبْتُ مِمَّنْ یَجِدُکَ ثُمَّ یَرْجِعُ عَنْکَ. فَقَالَ اللهُ تَعَالٰی: یَا مُوْسٰی، إِنَّ مَنْ وَجَدَنِيْ لَا یَرْجِعُ عَنِّيْ، وَمَا رَجَعَ مَنْ رَجَعَ إِلاَّ عَنِ الطَّرِیْقِ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع الله: 98.

روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ اپنی دعا میں عرض کیا: اے میرے پروردگار! مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تجھے پالینے کے بعد بھی تجھ سے روگردانی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! جو مجھے پالیتا ہے، وہ مجھ سے روگرداں نہیں ہو سکتا، اور جو روگرداں ہوا (تو یہ وہ شخص ہے جو) منزل پر پہنچنے سے پہلے راستے سے ہی واپس چلا گیا۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ مُوْسٰی علیه السلام کَانَ یَقُوْلُ فِي مُنَاجَاتِهٖ: إِلٰهِي خَصَّصْتَنِيْ بِالْکَلَامِ وَلَمْ تُکَلِّمْ بَشَرًا قَبْلِيْ، فَدُلَّنِيْ عَلٰی عَمَلٍ أَنَالُ بِهٖ رِضَاکَ، فَقَالَ اللهُ تَعَالٰی: یَا مُوْسٰی، رِضَائِيْ عَنْکَ رِضَاکَ بِقَضَائِيْ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أھل الحقیقة مع اللہ: 132.

روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی دعا میں (یوں) عرض کرتے تھے: الٰہی تو نے مجھے ہم کلامی کا شرفِ خاص عطا کیا اور مجھ سے قبل کسی انسان سے کلام نہیں فرمایا، لہٰذا مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دے جس کی بدولت میں تیری رضا حاصل کر سکوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! میری رضا اس میں ہے کہ تو میری قضا پر راضی رہے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ اللهُ تَعَالٰی لِمُوْسٰی علیه السلام: یَا مُوْسٰی، قُلْ لِبَنِيْ إِسْرَائِیْلَ أَنْ لَّا یَدْخُلُوا بَیْتاً مِنْ بُیُوتِيْ إِلَّا بِقُلُوبٍ وَجِلَةٍ، وَأَبْصَارٍ خَاشِعَةٍ، وَأَبْدَانٍ نَقِیَّةٍ، وَنِیَّةٍ صَادِقَةٍ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع اللہ: 125.

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی: اے موسیٰ! بنی اسرائیل کو فرما دو کہ وہ جب بھی میرے کسی گھرمیں داخل ہوں تو ڈرتے دلوں، جھکی نگاہوں، صاف بدنوں اور سچی نیتوں کے ساتھ داخل ہوا کریں۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی قَالَ لِمُوْسٰی علیه السلام: لَنْ یَتَقَرَّبَ إِلَيَّ الْمُتَقَرِّبُونَ بِمِثْلِ الْبُکَاءِ مِنْ خَشْیَتِيْ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع اللہ: 164.

مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: قربت پانے والے میرے خوف سے گریہ و زاری سے بڑھ کر کسی اور عمل کے ذریعے ہرگز میرا قرب حاصل نہیں کرتے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ فِیْمَا أَنْزِلَ عَلٰی مُوسٰی علیه السلام: إِنْ أَرَدْتَّ أَنْ تَکُوْنَ قَائِداً لِأَهْلِ الدُّنْیَا، وَسَیِّداً فِي الْمَنْظَرِ الأَعْلٰی فَکُنْ مُسْتَسْلِماً رَاضِیاً بِحُکْمِيْ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ: 143.

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کردہ کلام میں فرمایاہے: اگر تم چاہتے ہو کہ تم اہل دنیا کے قائد اور اعلیٰ مناصب پر فائز ہو جاؤ تو میرے سامنے جھک جاؤ اور میرے حکم پر راضی ہو جاؤ۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ دَاوُدَ علیه السلام

اَلْقُرْآن

یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِo

(صٓ، 38: 26)

اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راهِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لیے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے۔

اَلْحَدِیْث

15. عَنِ الْعَبَّاسِ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: قَالَ دَاوُدُ علیه السلام: أَسْأَلُکَ بِحَقِّ آبَائِي إِبْرَاهِیْمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ. فَقَالَ: أَمَّا إِبْرَاهِیْمُ، فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ، فَصَبَرَ مِنْ أَجْلِي وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْکَ، وَأَمَّا إِسْحَاقُ فَبَذَلَ نَفْسَهٗ لِلذِّبْحِ، فَصَبَرَ مِنْ أَجْلِي، وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْکَ، وَأَمَّا یَعْقُوْبُ فَغَابَ یُوْسُفُ عَنْهُ، وَتِلْکَ بَلِیَّۃٌ لَمْ تَنَلْکَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.

أخرجه البزار في المسند، 4: 133، الرقم: 1307، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8: 202.

حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ایک بار حضرت داود علیہ السلام نے (بارگاهِ الٰہی میں) عرض کیا: (اے اللہ!)میں تجھ سے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جہاں تک ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ہے تو انہیں آگ میں ڈالا گیا، انہوں نے میری خاطر اس پر صبر کیا جبکہ ایسی مصیبت سے تمہیں سابقہ نہیں پڑا۔ جہاں تک اسحق علیہ السلام کا تعلق ہے تو انہوں نے خود کو ذبح ہونے کے لیے پیش کیا اور میری خاطر اس پر صبر کیا جبکہ ایسی مصیبت سے بھی تمہیں واسطہ نہیں پڑا۔ جہاں تک یعقوب علیہ السلام کا تعلق ہے تو (ان کا بیٹا) یوسف ان کی نظروں سے غائب ہوگیا، ایسی آفت سے بھی تمہارا سامنا نہیں ہوا۔

اسے امام بزار اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ دَاوُدَ علیه السلام قَالَ: إِلٰهِي، مَا حَقُّ عِبَادِکَ عَلَیْکَ إِذَا هُمْ زَارُوْکَ فِي بَیْتِکَ، فَإِنَّ لِکُلِّ زَائِرٍ عَلَی الْمَزُوْرِ حَقًّا؟ قَالَ: یَا دَاوُدُ، إِنَّ لَهُمْ عَلَيَّ أَنْ أُعَافِیَهُمْ فِي الدُّنْیَا وَأَغْفِرَ لَهُمْ إِذَا لَقِیْتُهُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 1: 382، الرقم: 663، والدیلمي في مسند الفردوس، 3: 191، الرقم: 4529، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 5: 166.

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت داود علیہ السلام نے (بارگاهِ اِلٰہی میں) عرض کیا: اِلٰہی! تیرے بندوں کا تجھ پر کیا حق ہے، جب وہ تیرے گھر میں تیری زیارت کے لیے حاضر ہوں، کیونکہ جس کی زیارت کی جائے اس پر زیارت کرنے والے کا حق ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے داؤد! ان کا مجھ پر حق یہ ہے کہ میں دنیا میں انہیں عافیت (اور قلبی و روحانی سلامتی) دوں اور جب وہ (روزِ قیامت) مجھ سے ملاقات کریں تو انہیں بخش دوں۔

اسے امام طبرانی، دیلمی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ قَیْسٍ الْعَامِرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ علیه السلام قَالَ: یَا رَبِّ، عَلِّمْنِيْ شَیئًا أَتَقَرَّبُ بِهٖ إِلَیْکَ. قَالَ: نَعَمْ، یَا دَاوُدُ، أُعَلِّمُکَ شَیْئًا. قَالَ: وَمَا ھُوَ یَا رَبِّ؟ قَالَ: لَا تَغْتَبْ عِبَادِيَ الْمُسْلِمِیْنَ، ولَا تَحْسُدْ عَبْدًا لِي إِذَا رَأَیْتَ فَضْلَ نِعْمَتِي عَلَیْهِ.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تھذیب الأسرار: 73.

ایک روایت میں قیس العامری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کے نبی داود علیہ السلام نے عرض کیا: پروردگار! مجھے کوئی ایسی چیز بتلا دے جس کے ذریعے میں تیرا قرب حاصل کرلوں۔ فرمایا: ہاں داود! میں تمہیں ایک چیز کی تعلیم دیتا ہوں۔ انہوںنے عرض کیا: اے میرے پروردگار! وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: میرے مسلمان بندوں کی غیبت نہ کیا کرو اور جب میرے کسی بندے پر میرا فضل و کرم دیکھو، اُس پر حسد نہ کیا کرو۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنْ فُضَیْلِ بْنِ عِیَاضٍ، قَالَ: أَوْحَی اللهُ إِلٰی دَاوُدَ علیه السلام: کَذَبَ مَنِ ادَّعٰی مَحَبَّتِي، إِذَا جَنَّهُ اللَّیْلُ نَامَ عَنِّي.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تھذیب الأسرار: 8.

حضرت فضیل بن عیاض بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی: وہ شخص جھوٹا ہے جو دعویٰ تو مجھ سے محبت کا کرے اور جب رات چھا جائے تو مجھ سے منہ پھیر کر سو جائے۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی دَاوُدَ علیه السلام: یَا دَاوُدُ، لَوْ یَعْلَمُ الْمُدْبِرُوْنَ عَنِّي کَیْفَ انْتِظَارِي لَھُمْ، وَرِفْقِي بِھِمْ، وَشَوْقِي إِلٰی تَرْکِ مَعَاصِیْھِمْ، لَمَاتُوْا شَوْقًا إِلَيَّ وَتَقَطَّعَتْ أَوْصَالُھُمْ فِي مَحَبَّتِي.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تھذیب الأسرار: 67.

اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی: اے داؤد! مجھ سے روگردانی کرنے والے اگر جان لیتے کہ میں کس طرح ان کے انتظار میں رہتا ہوں اور کس طرح ان کے لیے آمادۂ لطف ہوں اور ان کے ترکِ گناہ کا مجھے کتنا اشتیاق ہوتا ہے تو وہ لوگ میرے شوق میں مر جاتے اور میری محبت میں (مستغرق ہوکر) اپنے تمام (دنیاوی) تعلقات سے منقطع ہو جاتے۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی دَاوُدَ علیه السلام: یَا دَاوُدُ، أَلَا طَالَ شَوْقُ الْأَبْرَارِ إِلٰی لِقَائِي، وَإِنِّي إِلَیْھِمْ لَأَشَدُّ شَوْقًا.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تهذیب الأسرار: 71.

اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے داود! سنو! نیکوکاروں کا شوق میری ملاقات کے لیے بہت بڑھ چکا ہے، جبکہ میں (اُن سے ملاقات کے لیے) اُن سے بھی زیادہ مشتاق ہوں۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

یُرْوٰی أَنَّ اللهَ تَعَالٰی أَوْحٰی إِلٰی دَاوُدَ علیه السلام: یَا دَاوُدُ، اِعْرِفْنِيْ، وَاعْرِفْ نَفْسَکَ. فَتَفَکَّرَ دَاوُدُ، فَقَالَ: إِلٰهِيْ عَرَفْتُکَ بِالْفَرْدَانِیَّةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْبَقَاءِ، وَعَرَفْتُ نَفْسِيْ بَالْعَجْزِ وَالْفَنَاءِ، فَقَالَ: اَلآنَ عَرَفْتَنِيْ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حاله أهل الحقیقة مع اللہ: 15.

روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی: اے داود! مجھے پہچان اور خود کو بھی پہچان۔ حضرت داود علیہ السلام نے (کچھ دیر) غور کیا، پھر عرض کیا: الٰہی! میں نے تجھے یکتائی، قدرت اور بقاء کے ذریعے پہچانا ہے اور خود کو عجز و فنا سے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اب تم نے مجھے (حقیقتاً) پہچان لیا ہے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی أَوْحٰی إِلٰی دَاوُدَ علیه السلام: ألَا مَنْ عَرَفَنِيْ أَرَادَنِيْ وَطَلَبَنِيْ، ومَنْ طَلَبَنِيْ وَجَدَنِيْ، ومَنْ وَجَدَنِيْ لَمْ یَخْتَرْ عَلَيَّ حَبِیْباً سِوَايَ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع اللہ: 65.

منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: جان لے! جس نے مجھے پہچانا وہی میری چاہت اور طلب کرتا ہے۔ اور جس نے میری طلب کی، اُسی نے مجھے پایا اور جس نے مجھے پا لیا، وہ میرے سوا کسی اور کو محبوب نہیں بنا سکتا۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی قَالَ لِدَاوُدَ علیه السلام: مَا یَتَعَبَّدُ الْمُتَعَبِّدُوْنَ، وَلَا یَتَقَرَّبُ الْمُتَقَرِّبُوْنَ بِشَيئٍ أَبْلَغُ عِنْدِي مِنَ الْاِعْتِصَامِ وَالتَّسْلِیْمِ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِیْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقیقة مع اللہ: 143.

روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کو وحی فرمائی: عبادت کرنے والے اور قرب کے متمنی لوگ میری رحمت کا دامن تھامنے اور سر تسلیم خم کرنے سے زیادہ میری بارگاہ میں کسی دوسری چیزسے رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ علیہما السلام

اَلْقُرْآن

(1) اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَo

(آل عمران، 3: 155)

جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گا۔

(2) اِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَم اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا ج وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ ج وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِیْ وَتُبْرِءُ الْاَکْمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ج وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌo

(المائدة، 5: 110)

جب اللہ فرمائے گا: اے عیسیٰ ابن مریم! تم اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میرا احسان یاد کرو جب میں نے پاک روح (جبرائیل) کے ذریعے تمہیں تقویت بخشی، تم گہوارے میں (بعہدِ طفولیت) اور پختہ عمری میں (بعہدِ تبلیغ و رسالت یکساں انداز سے) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت (و دانائی) اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور جب تم مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں (یعنی برص زدہ مریضوں) کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو (زندہ کر کے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہارے (قتل) سے روک دیا تھا جب کہ تم ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو ان میں سے کافروں نے (یہ) کہہ دیا کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔

(3) قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَـآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّنْکَ ج وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo قَالَ اللهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْکُمْ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لآَّ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَo وَ اِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰـھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ ط قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ط اِنْ کُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِo مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ ج وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ط وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ شَهِیْدٌo

(المائدة، 5: 114-117)

عیسٰی ابن مریم (علیہما السلام) نے عرض کیا: اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ اللہ نے فرمایا: بے شک میں اسے تم پر نازل فرماتا ہوں، پھر تم میں سے جو شخص (اس کے) بعد کفر کرے گا تو یقینا میں اسے ایسا عذاب دوں گا کہ تمام جہان والوں میں سے کسی کو بھی ایسا عذاب نہ دوں گا۔ اور جب اللہ فرمائے گا: اے عیسٰی ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ عرض کریں گے: تو پاک ہے، میرے لیے یہ(روا) نہیں کہ میںایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو یقینا تو اسے جانتا، تو ہر اس (بات) کو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں ان(باتوں)کو نہیں جانتا جو تیرے علم میںہیں۔ بے شک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ میں نے انہیں سوائے اس (بات) کے کچھ نہیں کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ تم (صرف) اللہ کی عبادت کیا کرو جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے اور میں ان (کے عقائد و اعمال) پر (اس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا، اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔

اَلْحَدِیْث

16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: أَوْحَی اللهُ إِلٰی عِیْسٰی علیه السلام: یَا عِیْسٰی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهٗ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ یُؤْمِنُوْا بِهٖ؛ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ، فَکَتَبْتُ عَلَیْهِ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ؛ فَسَکَنَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْخَلَّالُ وَابْنُ حَیَّانَ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّھَبِيُّ.

16: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2: 671، الرقم: 4227، والخلال في السنۃ: 261، الرقم: 316، وابن حیان في طبقات المحدثین بأصبھان، 3: 287، وذکره الذھبي في میزان الاعتدال، 5: 299، الرقم: 6336، والعسقلاني في لسان المیزان، 4: 354، الرقم: 1040.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اُنہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے عیسیٰ! محمد (ﷺ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے، ان پر ایمان لائے۔ (جان لو!) اگر محمد (مصطفی ﷺ ) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد (مصطفی ﷺ ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت کو پیدا کرتا نہ دوزخ کو، اور جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہوگئی؛ لہٰذا میں نے اس پر لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔

اسے امام حاکم، خلال اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَوْحَی اللهُ تعالیٰ إلٰی عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ، یَا عِیْسٰی، عِظْ نَفْسَکَ بِحِکْمَتِي، فَإِنِ انْتَفَعَتْ فَعِظِ النَّاسَ، وَإِلَّا فَاسْتَحِ مِنِّي.

رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَذَکَرَهُ الْهِنْدِيُّ.

أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 1: 144، الرقم: 513، وذکره الهندي في کنز العمال، 15: 336، الرقم: 43156.

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی طرف (مخلوق کو تعلیم دینے کے لیے) وحی فرمائی: اے عیسیٰ! اپنے نفس کو میری عطاکردہ حکمت کے ساتھ نصیحت کر۔ اگر آپ کے نفس کو فائدہ پہنچے تو دوسرے لوگوں کو بھی نصیحت کر، اور اگر کچھ فائدہ نہ ہو تو مجھ سے حیاء کر۔

اسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے اور ہندی نے بیان کیا ہے۔

وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ بْنُ الْجَلَّاءِ: أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ علیهما السلام : إِنِّي إِذَا اطَّلَعْتُ عَلٰی سِرِّ عَبْدٍ، فَلَمْ أَجِدْ فِیْهِ حُبَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ، مَلَأْتُهٗ مِنْ حُبِّي، وَتَوَلَّیْتُهٗ بِحِفْظِي.

ذَکَرَهٗ أَبُو سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ فِي التَّهْذِیْبِ.

أبو سعد النیسابوري في تهذیب الأسرار: 57.

ابو عبد اللہ بن الجلاء بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی بن مریم علیہما السلام کی طرف وحی فرمائی: میں جب کسی بندے کے قلب و باطن میں نگاہ فرماتا ہوں اور اُس میں دنیا و آخرت کی محبت نہیں پاتا تو اسے اپنی محبت سے بھر دیتا ہوں اور اُسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہوں۔

اسے امام ابو سعد نیشاپوری نے ’تہذیب الاسرار‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved