اربعین: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انبیاء اور اولیاء و صالحین سے کلام کرنا

روز قیامت اللہ تعالیٰ کا شہداء سے کلام فرمانا

کَلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ الشُّهَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا شہداء سے کلام فرمانا

30. عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هٰذِهِ الْآیَةِ: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَo} [آل عمران، 3: 169]. قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذٰلِکَ. فَقَالَ: أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِیْلُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شَائَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلٰی تِلْکَ الْقَنَادِیْلِ فَاطَّلَعَ إِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً. فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُوْنَ شَیْئًا؟ قَالُوْا: أَيَّ شَيئٍ نَشْتَهِي، وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ شِئْنَا؟ فَفَعَلَ ذٰلِکَ بِهِمْ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ. فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ یُتْرَکُوْا مِنْ أَنْ یُسْأَلُوْا، قَالُوْا: یَا رَبِّ، نُرِیْدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتّٰی نُقْتَلَ فِي سَبِیْلِکَ مَرَّةً أُخْرٰی، فَلَمَّا رَأٰی أَنْ لَیْسَ لَهُمْ حَاجَۃٌ تُرِکُوْا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ مَنْدَہ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الإمارة، باب بیان أن أرواح الشهداء في الجنة وأنھم أحیاء عند ربھم یرزقون، 3: 1502، الرقم: 1887، والترمذي في السنن، أبواب التفسیر، تفسیر سورة آل عمران، 5: 231، الرقم: 3011، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل الشهادة في سبیل الله، 2: 936، الرقم: 2801، والدارمي في السنن، 2: 271، الرقم: 2401، وابن منده في الإیمان، 1: 400-401، الرقم: 244، والطبراني في المعجم الکبیر، 9: 209-210، الرقم: 9023-9024.

مسروق بیان کرتے ہیں: ہم نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًاط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ.} ’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے۔‘۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم نے یہی سوال حضور نبی اکرم ﷺ سے کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کی روحیں سبز پرندوں کے جسموں میں رہتی ہیں اور ان کے لیے عرش میں قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں پھرتی ہیں اور پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ پھر ان کا رب انہیں نظر رحمت سے تکتا ہے اورپوچھتا ہے: کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہمیں مزید کس چیز کی خواہش ہوسکتی ہے! ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں آزادی سے پھرتے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ ان سے تین بار یہ دریافت فرماتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کو جواب دیے بغیر نہیں چھوڑا جا رہا تو وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے حتیٰ کہ ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کر دیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ انہیں کوئی حاجت نہیں ہے تو پھر انہیں جنّت میں آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔

اسے امام مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، ابن مندہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

31. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یُؤْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیَقُوْلُ اللهُ تعالیٰ: یَا ابْنَ آدَمَ، کَیْفَ وَجَدْتَ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: أَي رَبِّ، خَیْرَ مَنْزِلٍ. فَیَقُوْلُ: سَلْ، وَتَمَنَّ. فَیَقُوْلُ: أَسْأَلُکَ أَنْ تَرُدَّنِي إِلَی الدُّنْیَا، فَأُقْتَلَ فِي سَبِیلِکِ عَشْرَ مَرَّاتٍ، لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَأَبُو یَعْلٰی وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 131، 207، 239، الرقم: 12364، 13185، 13535، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب مسألة الشهادة، 6: 37، الرقم: 3160، وأیضًا في السنن الکبری، 3: 24، الرقم: 4368، وأبویعلی في المسند، 6: 215، الرقم: 3497، وابن أبي عاصم في کتاب الجهاد، 2: 548، الرقم: 215، والحاکم في المستدرک، 2: 85، الرقم: 2405، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 6: 253.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت والوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے ارشاد فرمائے گا: اے فرزندِ آدم! تم نے اپنی منزل کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا: اے رب! مجھے بہترین جگہ ملی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: مانگو! اور کسی چیز کی آرزو کرو۔ وہ عرض کرے گا: میری آرزو ہے کہ باری تعالیٰ مجھے پھر دنیا کی طرف بھیج دے تاکہ میں تیری راہ میں دس مرتبہ (بار بار) شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ خواہش اس لیے کرے گا) کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کا مقام و مرتبہ دیکھ چکا ہوگا۔

اسے امام احمد، نسائی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابو یعلی، حاکم اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

32. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: یَخْتَصِمُ الشُّهَدَائُ وَالْمُتَوَفَّوْنَ عَلٰی فُرُشِهِمْ إِلٰی رَبِّنَا فِي الَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنَ الطَّاعُوْنِ. فَیَقُوْلُ الشُّهَدَاءُ: إِخْوَانُنَا قُتِلُوْا کَمَا قُتِلْنَا. وَیَقُوْلُ الْمُتَوَفَّوْنَ عَلٰی فُرُشِهِمْ: إِخْوَانُنَا مَاتُوْا عَلٰی فُرُشِهِمْ کَمَا مُتْنَا. فَیَقُوْلُ رَبُّنَا: انْظُرُوْا إِلٰی جِرَاحِهِمْ، فَإِنْ أَشْبَهَ جِرَاحُهُمْ جِرَاحَ الْمَقْتُوْلِیْنَ، فَإِنَّهُمْ مِنْهُمْ وَمَعَهُمْ. فَإِذَا جِرَاحُهُمْ قَدْ أَشْبَهَتْ جِرَاحَهُمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 128، الرقم: 17199، 17204، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب مسألة الشهادة، 6: 37، الرقم: 3164، وأیضًا في السنن الکبری، 3: 25، الرقم: 4372، والطبراني في المعجم الکبیر، 18: 250، الرقم: 626، وأیضا في مسند الشامیین، 2: 195، الرقم: 1177، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 5: 221.

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہداء اور اپنے بستروں پر (طبعی) موت پانے والوں کے درمیان ہمارے رب کے روبرو طاعون کے باعث وفات پانے والوںسے متعلق جھگڑا ہوگا۔ شہداء کہیں گے: یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں کیونکہ یہ ایسے ہی مارے گئے ہیں جیسے ہم مارے گئے؛ جب کہ بستروں پر (طبعی) موت پانے والے کہیں گے: یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں کیونکہ یہ اُسی طرح بستروں پر فوت ہوئے ہیں جیسے ہم فوت ہوئے۔ ہمارے رب کی طرف سے فیصلہ صادر فرمایا جائے گا: ان لوگوں کے زخموں کو دیکھو؛ اگر شہداء سے ملتے ہیں تو بلاشبہ یہ لوگ شہداء میں سے ہیں اور ان کے ساتھی ہیں۔ پس جب انہیں دیکھیں گے تو ان کے زخم شہداء کے زخموں جیسے ہوں گے، (لہٰذا طاعون سے مرنے والوں کو بھی شہداء میں شمار کیا جائے گا)۔

اسے امام احمد نے، نسائی نے مذکورہ الفاظ میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved