اربعین: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انبیاء اور اولیاء و صالحین سے کلام کرنا

روز قیامت اللہ تعالیٰ کا عامۃ الناس سے کلام فرمانا

کَـلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا عامۃ الناس سے کلام فرمانا

37. عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَیُکَلِّمُهٗ رَبُّهٗ، لَیْسَ بَیْنَهٗ وَبَیْنَهٗ تُرْجُمَانٌ وَلَا حِجَابٌ یَحْجُبُهٗ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب التوحید، باب قول الله تعالٰی: {وجوه یومئذ ناضرةo إلی ربها ناظرةo}، 6: 2709، الرقم: 7005، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، 2: 703، الرقم: 1016، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 388، الرقم: 3679، والترمذي في السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین یدخلون الجنة قبل أغنیائهم، 4: 577، الرقم: 2352، والنسائي في السنن، کتاب الزکوٰة، باب القلیل في الصدقة، 5: 74، الرقم: 2552، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فیما أنکرت الجھیمة، 1: 66، الرقم: 185.

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص عنقریب (روزِ قیامت) اس حال میں اپنے رب سے کلام کرے گا کہ باری تعالیٰ اور اس کے درمیان کوئی ترجمان یا پردہ حائل نہیں ہوگا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

38. عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما آخِذٌ بِیَدِهٖ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: کَیْفَ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ فِي النَّجْوٰی؟ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ یُدْنِي الْمُؤْمِنَ فَیَضَعُ عَلَیْهِ کَنَفَهٗ وَیَسْتُرُهٗ، فَیَقُوْلُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ کَذَا؟ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ کَذَا؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، أَي رَبِّ. حَتّٰی إِذَا قَرَّرَهٗ بِذُنُوْبِهٖ وَرَأٰی فِي نَفْسِهٖ أَنَّهٗ هَلَکَ. قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَیْکَ فِي الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَکَ الْیَوْمَ، فَیُعْطٰی کِتَابَ حَسَنَاتِهٖ. وَأَمَّا الْکَافِرُ وَالْمُنَافِقُونَ فَیَقُوْلُ الْأَشْهَادُ: {ھٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ ج اَ لَا لَعْنَۃُ اللهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَo} [هود، 11: 18].

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المظالم والغضب، باب قول الله تعالی: ألا لعنة الله علی الظالمین، 2: 862، الرقم: 2309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فیما أنکرت الجھیمة، 1: 65، الرقم: 183، وابن أبي شیبة في المصنف، 7: 63-64، الرقم: 34221، والبیھقي في شعب الإیمان، 1: 253، الرقم: 271.

حضرت صفوان بن مُحْرِز المازنی نے بیان کیا ہے: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیے چل رہا تھا کہ ایک شخص سامنے سے آیا اور اُس نے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے (روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی سے متعلق کیا سنا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو قریب بلائے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال کر اسے چھپا لے گا پھر اس سے فرمائے گا: کیا تمہیں فلاں گناہ یاد ہے؟ (جو تم نے دنیا میں کیا تھا)؟ کیا فلاں گناہ یاد ہے؟ بندۂ مومن کہے گا: ہاں، میرے رب! آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اِقرار کرلے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں پر پردہ پوشی کی تھی، اور آج تمہاری مغفرت کرتا ہوں۔ چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب تھما دی جائے گی۔ لیکن جہاں تک کافر اور منافق کا معاملہ ہے، (ان سے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت ہے:) {ھٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْج اَ لَا لَعْنَۃُ اللهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ۔} ’اور گواہ کہیں گے: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، جان لو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے‘۔

اِسے امام بخاری، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: یَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. قَالَ: یَا رَبِّ، کَیْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ. أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَهٗ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهٗ؟ یَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. قَالَ: یَا رَبِّ، وَکَیْفَ أُطْعِمُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِي فُـلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؛ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ أَطْعَمْتَهٗ لَوَجَدْتَ ذٰلِکَ عِنْدِي. یَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِي. قَالَ: یَا رَبِّ، کَیْفَ أَسْقِیْکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: اسْتَسْقَاکَ عَبْدِي فُـلَانٌ، فَلَمْ تَسْقِهٖ؛ أَمَا إِنَّکَ لَوْ سَقَیْتَهٗ وَجَدْتَ ذٰلِکَ عِنْدِي.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ، وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل عیادة المریض، 4: 1990، الرقم: 2569، والبخاري في الأدب المفرد: 182، الرقم: 517، وابن حبان في الصحیح، 1: 503، الرقم: 269، وأیضًا، 3: 224، الرقم: 944، وابن راھویه في المسند، 1: 115، الرقم: 28، والبیهقي في شعب الإیمان، 6: 534، الرقم: 9182، والدیلمي في مسند الفردوس، 5: 235، الرقم: 8053.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا مگر تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ ارشاد ہوگا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اُس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کر لیتا تو مجھے اُس کے پاس موجود پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا حالانکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، اگر تو اس کو کھانا کھلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی بھی نہ پلایا؟ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو خود رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پا لیتا (یعنی اس کے اجر و ثواب کو میرے پاس موجود پاتا)۔

اِسے امام مسلم نے، بخاری نے الأدب المفرد میں اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

40. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ سَیُخَلِّصُ رَجُـلًا مِنْ أُمَّتِي عَلٰی رُئُوْسِ الْخَلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیَنْشُرُ عَلَیْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِیْنَ سِجِلًّا، کُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: أَتُنْکِرُ مِنْ هٰذَا شَیْئًا؟ أَظَلَمَکَ کَتَبَتِي الْحَافِظُوْنَ، فَیَقُوْلُ: لَا، یَا رَبِّ. فَیَقُوْلُ: أَفَلَکَ عُذْرٌ؟ فَیَقُوْلُ: لَا، یَا رَبِّ. فَیَقُوْلُ: بَلٰی إِنَّ لَکَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهٗ لَا ظُلْمَ عَلَیْکَ الْیَوْمَ، فَتُخْرَجُ بِطَاقَۃٌ فِیْهَا: {أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ}. فَیَقُوْلُ: احْضُرْ وَزْنَکَ. فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، مَا هٰذِهِ الْبِطَاقَۃُ مَعَ هٰذِهِ السِّجِلَّاتِ؟ فَقَالَ: إِنَّکَ لَا تُظْلَمُ. قَالَ: فَتُوْضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي کَفَّةٍ وَالْبِطَاقَۃُ فِي کَفَّةٍ فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ، وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَۃُ؛ فَـلَا یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيئٌ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ مَاجَہ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 213، الرقم: 6994، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد أن لا إله إلا الله، 5: 24، الرقم: 2639، وابن ماجه في السنن، کتاب الزھد، باب ما یرجی من رحمة الله یوم القیامة، 2: 1437، الرقم: 4300، وابن حبان في الصحیح، 1: 461، الرقم: 225.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میری اُمت کے ایک شخص کو چن کر الگ کر دے گا۔ پھر اس کے سامنے گناہوں کے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے۔ ہر دفتر اتنا طویل ہوگا جتنی طوالت تک نگاہ جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تجھے اس میں سے کسی شے کا انکار ہے؟ کیا میرے لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تجھ پر کوئی ظلم کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا: نہیں، یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (لیکن بایں ہمہ) ہمارے پاس تیری ایک نیکی بھی ہے، آج تجھ پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمہ شہادت - {أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ} - لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میزان کے پاس حاضر ہو جاؤ۔ وہ عرض کرے گا: یا اللہ! ان دفتروں کے سامنے اس چھوٹے سے کاغذ کی کیا حیثیت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تجھ پر ظلم نہ ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: پھر ایک پلڑے میں گناہوں کے ننانوے دفتر رکھے جائیں گے اور دوسرے میں کاغذ کا وہ پرزہ رکھا جائے گا۔ دفتروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا جبکہ کاغذ والا پلڑا بھاری ہو جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی (اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اکرم ﷺ کی رسالت پر صدقِ دل سے ایمان لانا، ان کی شہادت دینا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا مبارک ذکر کرنا یہ عمل بہت سے گناہوں پر بھاری ہو جائے گا اور بندے کی مغفرت کا باعث ہوگا)۔

اِسے امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

41. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَضَحِکَ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مِمَّا أَضْحَکُ؟ قَالَ: قُلْنَا: اللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ. قَالَ: مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهٗ، یَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: یَقُوْلُ: بَلٰی. قَالَ: فَیَقُوْلُ: فَإِنِّي لَا أُجِیْزُ عَلٰی نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِنِّي. قَالَ: فَیَقُوْلُ: کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ شَهِیْدًا وَبِالْکِرَامِ الْکَاتِبِیْنَ شُهُوْدً. قَالَ: فَیُخْتَمُ عَلٰی فِیْهِ، فَیُقَالُ لِأَرْکَانِهٖ: انْطِقِي. قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهٖ، قَالَ: ثُمَّ یُخَلّٰی بَیْنَهٗ وَبَیْنَ الْکَلَامِ، قَالَ: فَیَقُوْلُ: بُعْدًا لَکُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْکُنَّ کُنْتُ أُنَاضِلُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ یَعْلٰی.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الزھد والرقائق، باب منه، 4: 2280، الرقم: 2969، وأبو یعلی في المسند، 7: 57، الرقم: 3977، وذکره المنذري في الترغیب والترھیب، 4: 224، الرقم: 5467.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک آپ ﷺ مسکرا پڑے۔ پھر آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کیوں مسکرایا ہوں؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بندے کے اپنے رب سے ہونے والے مکالمے پر ہنسی آئی ہے۔ بندہ عرض کرے گا: اے میرے رب! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ اللہ فرمائے گا: کیوں نہیں۔ بندہ عرض کرے گا: میں اپنے خلاف اپنے سوا کسی اور کی گواہی قبول نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تمہارے خلاف تمہاری اپنی گواہی اور کراماً کاتبین کی گواہی ہی کافی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا: بولو۔ پھر اس کے اعضاء اس کے اعمال کے بارے میں بیان دیں گے، پھر اس کے اور اس کے کلام کے درمیان تخلیہ کیا جائے گا۔ پھر وہ اپنے اعضاء سے کہے گا: دور ہو جاؤ، دفع ہو جاؤ، میں تمہاری طرف سے ہی تو جھگڑ رہا تھا (اور تم نے اپنے ہی خلاف گواہی دے دی)۔

اِسے امام مسلم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved