ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

اللہ عزوجل کے ذکر کی فضیلت

فَصْلٌ فِي فَضْلِ ذِکْرِ اللهِ تَعَالَی

{اللہ عزوجل کے ذکر کی فضیلت}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo

(البقرۃ، 2 : 152)

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘

2۔ فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ۔

(النساء، 4 : 103)

’’پھر اے (مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔‘‘

3۔ یٰـٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo

(الأنفال، 8 : 45)

’’اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo‘‘

4۔ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللهِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo

(الرعد، 13 : 28)

’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہےo‘‘

5۔ وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرُ ط وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo

(العنکبوت، 29 : 45)

’’اور واقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہوo‘‘

6۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًاo وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo

(الأحزاب، 33 : 41)

’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کروo اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کروo‘‘

7۔ یٰـٓاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ط ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo

(الجمعۃ، 62 : 9، 10)

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo‘‘

8۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ ج وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَo

(المنفقون، 63 : 9)

’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کردیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَـلَإٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَـلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً۔

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی، ویحذرکم الله نفسه، 6 / 2694، الرقم : 6970، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : في حسن الظن بالله عزوجل، 5 / 581، الرقم : 3603۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنھما : أَنَّھُمَا شَھِدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکَرُوْنَ اللهَ عزوجل إِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْھِمُ السَّکِيْنَةُ، وَذَکَرَھُمُ اللهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ أَبُو عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، 4 / 2074، الرقم : 2700، والترمذي في السنن کتاب : الدعوات، باب : ما جاء في القوم یجلسون فیذکرون الله عزوجل ما لھم من الفضل، 5 / 459، الرقم : 3378۔

’’حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنھما دونوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں گواہی دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین میں کرتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

3۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ عَلَی أَحَدٍ یَقُوْلُ : اللهُ، اللهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

وَفِي رِوَایَةِ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی لَا یُقَالَ فِي الْأَرْضِ : اللهُ، اللهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

3 : أخرجه مسلم فی الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : ذھاب الإیمان آخر الزمان، 1 / 131، الرقم : 148، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 402، الرقم : 20847، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم : 12682، وأبوعوانۃ في المسند، 1 / 94، الرقم : 293۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اللہ کہنے والے کسی شخص پر قیامت نہ آئے گی (یعنی جب قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی اللہ اللہ کرنے والا نہ ہو گا)۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت برپا ہو گی، جب دنیا میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ ان دونوں روایات کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاء رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِيْکِکُمْ، وَأَرْفَعِھَا فِي دَرَجَاتِکُمْ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ، فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی۔ قَالَ : ذِکْرُ اللهِ تَعَالَی۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ الْحَاکِمُ : حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 6، 5 / 459، الرقم : 3377، وابن ماجه فی السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل الذکر، 2 / 1245، الرقم : 3790، والحاکم فی المستدرک، 1 / 673، الرقم : 1825، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 239، الرقم : 22132، والبیهقي فی شعب الإیمان، 1 / 394، الرقم : 519۔

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے، تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے، تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے، اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے درآنحالیکہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا : وہ عمل اللہ کا ذکر ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ۔ قَالَ : لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللهِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : ما جاء في فضل الذکر، 5 / 458، الرقم : 3375، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل الذکر، 2 / 1246، الرقم : 3793، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 58، الرقم : 29453، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 188، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 274، الرقم : 2268۔

’’حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! احکام اسلام مجھ پر غالب آگئے ہیں مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیری زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

6۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ یَذْکُرِ اللهَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ تِرَةٌ وَمَنِ اضْطَجَعَ مُضْطِجَعًا لَا یَذْکُرُ اللهَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ تِرَةٌ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ۔

6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : کراهیۃ أن یقوم الرجل من مجلسه ولا یذکر الله، 4 / 264، الرقم : 4856، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 107، الرقم : 10237، والطبراني في مسند الشامیین، 2 / 272، الرقم : 1324، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 135، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 262۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھ گیا اور اس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ندامت وارد ہو گی اور جو بستر میں لیٹے اور اس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھی ندامت ہو گی۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

7۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَکْثِرُوْا ذِکرَ اللهِ حَتَّی یَقُوْلُوْا : مَجْنُوْنٌ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو یَعْلَی، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔

7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، الرقم : 11671، وأیضاً، 3 / 711، الرقم : 311692، وأبو یعلی في المسند، 2 / 521، الرقم : 1376، وابن حبان في الصحیح، 3 / 99، الرقم : 817، والحاکم في المستدرک، 1 / 677، الرقم : 1839، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 397، الرقم : 526، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 72، الرقم : 212۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

8۔ عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ : أَيُّ الْجِهَادِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ قَالَ : فَأَيُّ الصَّائِمِيْنَ أَعْظَمُ أجْرًا؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ ثُمَّ ذَکَرَ لَنَا الصَّلَاةَ وَالزَّکَاةَ وَالْحَجَّ وَالصَّدَقَةَ کُلُّ ذَلِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِعُمَرَ رضي الله عنهما : یَا أَبَا حَفْصٍ، ذَهَبَ الذَّاکِرُوْنَ بِکُلِّ خَيْرٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَجَلْ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 438، الرقم : 15652، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 186، الرقم : 407، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 257، الرقم : 2309، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 74۔

’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کون سے مجاہد کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُن میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : روزہ داروں میں سے کس کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُن میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ پھر اُس نے ہمارے لیے نماز، زکوٰۃ، حج اور صدقے کا ذکر کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہر بار فرماتے رہے : جو اُن میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے ابو حفص! اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تمام نیکیاں لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بالکل(درست ہے)۔‘‘

اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔

9۔ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَکْثِرُوْا ذِکْرَ اللهِ حَتَّی یَقُوْلَ الْمُنَافِقُوْنَ : إِنَّکُمْ مُرَاؤُوْنَ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

9 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 1 / 397، الرقم : 527، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 256، الرقم : 2305، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 76، والمناوي في فیض القدیر، 2 / 85، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 169، الرقم : 12786، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 444، وأبونعیم في حلیۃ الأولیائ، 3 / 81۔

’’حضرت ابو جوزا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

10۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ آخِرَ کَـلَامٍ فَارَقْتُ عَلَيْهِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَنْ قُلْتُ : أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ قَالَ : أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللهِ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔

10 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 3 / 99، الرقم : 818، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 106، الرقم : 208، وابن المبارک في الزھد، 1 / 401، الرقم : 1141۔

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوتے ہوئے جو آخری بات کی وہ یہ تھی : میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ جب توفوت ہو تو تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔

11۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لَیَذْکُرَنَّ اللهَ قَوْمٌ فِي الدُّنْیَا عَلَی الْفُرُشِ الْمُمَهَّدَةِ یُدْخِلُهُمُ الدَّرَجَاتِ الْعُلَی۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

11 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 2 / 124، الرقم : 398، وأبو یعلی في المسند، 2 / 359، الرقم : 1110۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگ دنیا میں بچھے ہوئے پلنگوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں گے اور وہ انہیں (جنت کے) بلند درجات میں داخل کر دے گا۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

12۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِکٍ رضي الله عنه قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الشَّيْطَانَ وَاضِعٌ خُطُمَهُ عَلَی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ فَإنْ ذَکَرَ اللهَ خَنَسَ وَإِنْ نَسِيَ الْتَقَمَ قَلْبَهُ فَذَلِکَ الْوَسْوَاسُ الْخَنَّاسُ۔ رَوَاهُ أَبُو یَعْلَی۔

12 : أخرجه أبو یعلی في المسند، 7 / 278، الرقم : 4301، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 402، الرقم : 540۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شیطان نے ابن آدم کے دل پر اپنی رسیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اگر وہ بھول جائے تو وہ اُس کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور یہی وسوسہ ڈالنے والا خناس ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

13۔ عَنْ أُمِّ أَنَسٍ رضي الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : اهْجُرِي الْمَعَاصِي فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْهِجْرَةِ وَحَافِظِي عَلَی الْفَرَائِضِ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْجِهَادِ وَأَکْثِرِي ذِکْرَ اللهِ فَإِنَّکِ لَا تَأْتِيْنَ اللهَ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ کَثْرَةِ ذِکْرِهِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ۔

13 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 51، الرقم : 6822، وفي المعجم الکبیر، 25 / 129، الرقم : 313، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 34، الرقم : 4076۔

’’حضرت اُم انس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : گناہوں کو چھوڑ دے یہ سب سے افضل ہجرت ہے اور فرائض کی پابندی کر یہ سب سے افضل جہاد ہے۔ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر۔ تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کثرتِ ذکر سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز پیش نہیں کر سکتیں۔‘‘

اسے امام طبرانی نے سندِ جید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

14۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ عَجَزَ مِنْکُمْ عَنِ اللَّيْلِ أَنْ یُکَابِدَهُ وَبَخِلَ بِالْمَالِ أَنْ یُنْفِقَهُ وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ یُجَاهِدَهُ فَلْیُکْثِرْ ذِکْرَ اللهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ۔

14 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 84، الرقم : 11121، وفي مسند الشامیین، 1 / 114، الرقم : 174، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 215، الرقم : 641، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 390، الرقم : 508۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص پوری رات (عبادت کرنے کی) مشقت سے عاجز ہے، دولت خرچ کرنے میں بخیل ہے اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے میں بزدل ہے، اُسے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔‘‘

اسے امام طبرانی اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ عبد بن حمید کے ہیں۔

15۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْ أَنَّ رَجُلًا فِي حِجْرِهِ دَرَاهِمُ یَقْسِمُهَا وَآخَرُ یَذْکُرُ اللهَ کَانَ الذَّاکِرُ ِللّٰهِ أَفْضَلَ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔

15 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 116، الرقم : 5969، وابن أبي عاصم في الزھد، 1 / 187، وذکره المنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 257، الرقم : 2310۔

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر ایک آدمی کے دامن میں درہم ہوں اور وہ اِنہیں تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا اللہ کا ذکر کر رہا ہو تو (اُن دونوں میں) اللہ کا ذکر کرنے والا افضل ہو گا۔‘‘ اسے امام طبرانی نے سندِ حسن کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

16۔ عَنْ أَبِي الْمُخَارِقِ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِرَجُلٍ مُغَيَّبٍ فِي نُوْرِ الْعَرْشِ، قُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ مَلَکٌ؟ قِيْلَ : لَا۔ قُلْتُ : نَبِيٌّ؟ قِيْلَ : لَا، قُلْتُ : مَنْ هُوَ؟ قَالَ : هَذَا رَجُلٌ کَانَ فِي الدُّنْیَا لِسَانُهُ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللهِ وَقَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ وَلَمْ یَسْتَسِبَّ لِوَالِدَيْهِ قَطُّ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي کِتَابِ الْأَوْلِیَاء۔

16 : أخرجه ابن أبي الدنیا في الأولیاء، 1 / 38، الرقم : 95، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 445، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 253، الرقم : 2292۔

’’حضرت ابو المخارق نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا۔ وہ عرش کے نور میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ کیا یہ فرشتہ ہے؟ کہا گیا : نہیں۔ میں نے پوچھا : کیا یہ کوئی نبی ہے؟ جواب ملا : نہیں۔ میں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ (کہنے والے نے) کہا : یہ وہ آدمی ہے جس کی زبان دنیا میں اللہ کے ذکر سے تر رہتی تھی اور اس کا دل مسجد میں معلق رہتا تھا اور اس نے کبھی اپنے والدین کو گالی نہیں دلوائی۔‘‘

اسے ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب ’’الأولیاء‘‘ میں بیان کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال موسی علیه السلام : یا رب، ما الشکر الذي ینبغي لک؟ قال : یا موسی، لا یزال لسانک رطبا من ذکري۔

1 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 73، الرقم : 34288، وابن المبارک في کتاب الزهد : 280، وابن أبي الدنیا في الشکر : 18، الرقم : 39، والبیهقي في شعب الإیمان، 4 / 103، الرقم : 4428۔

’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے رب! کون سا شکر تیری شانِ عظیم کے لائق ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ!(میری شان یہ ہے کہ) تمہاری زبان ہمیشہ میرے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔‘‘

2۔ قال عمر رضي الله عنه : علیکم بذکر الله فإنه شفاء وإیاکم وذکر الناس فإنه داء۔

2 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزہد : 179۔

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے ذکر کو لازم پکڑو کیونکہ وہ شفاء ہے اور لوگوں کے ذکر سے بچو کیونکہ وہ بیماری ہے۔‘‘

3۔ قال ابن عباس رضي الله عنهما : لا تقوم الساعۃ وواحد یقول الله الله۔

3 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 278۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے جب تک اس زمین پر ایک بھی اللہ کا ذکر کرنے والا موجود ہے۔‘‘

4۔ قال معاذ بن جبل رضي الله عنه : ما عمل آدمي عملا أنجی له من عذاب الله من ذکر الله۔ قالوا : یا أبا عبد الرحمن، ولا الجهاد في سبیل الله عزوجل قال : ولا إلی أن یضرب بسیفه حتی ینقطع لأن الله عزوجل یقول في کتابه : {وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرُ} [العنکبوت، 29 : 45]۔

4 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 269۔

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آدمی کا کوئی بھی عمل، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر اسے عذاب سے نجات دلانے والا نہیں۔ لوگوں نے کہا : اے ابو عبدالرحمن! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا : نہیں یہاں تک کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی تلوار سے اتنے وار کرے کہ وہ ٹوٹ جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ’’اور واقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔‘‘

5۔ سَأَلَ سفیان الثوري ذا النون المصري رحمهما الله عن الذکر، فقال : الذکر هو غیبۃ الذاکر عن الذکر۔

5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 224۔

’’حضرت سفیان ثوری نے حضرت ذو النون مصری رحمہما اللہ سے ذکر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : ذکر یہ ہے کہ ذاکر (معرفتِ الٰہی میں) اس قدر محو ہو جائے کہ اسے ذکر کی خبر نہ ہو۔‘‘

6۔ سُئِل أبو یزید البسطامي رَحِمَهُ الله : ما علامةُ العارِف؟۔ فقال : ألا یَفْتُر مِنْ ذِکْره، ولا یَمَلَّ من حقِّه، ولا یستأنِسَ بغیره۔

6 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 72۔

’’حضرت ابو یزیدبسطامی رَحِمَهُ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عارف کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ’’وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت نہ کرے اور اس کے حق سے اُچاٹ نہ ہو اور اس کے علاوہ کسی سے انس حاصل نہ کرے‘‘۔

7۔ قال الجُنَيْدُ رَحِمَهُ الله : الغَفْلۃ عن الله تعالی أشدُّ من دُخول النار۔

7 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 159۔

’’حضرت جنید رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے غفلت دوزخ میں داخل ہونے سے بدتر ہے۔‘‘

8۔ قال کعب الأحبار رَحِمَهُ الله : أنیروا بیوتکم بذکر الله کما تنیرون قلوبکم به۔

8 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 70۔

’’حضرت کعب احبار رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روشن کرو جس طرح کہ اس کے ساتھ اپنے دلوں کو روشن کرتے ہو۔‘‘

9۔ قال ذو النون المصري رحمه الله : من علامۃ سخط الله تعالی علی العبد خوفه من الفقر، وکان یقول : لکل شيء علامۃ وعلامۃ طرد العارف عن حضرۃ الله تعالی انقطاعه عن ذکر الله عزوجل۔

9 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 107۔

’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بندے پر خدا تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فقر سے ڈرے۔آپ فرماتے تھے ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دربار سے کسی عارف کے مسترد ہونے کی علامت اس کا ذکر الٰہی سے تعلق توڑ لینا ہے۔‘‘

10۔ قال سهل بن عبد الله التستري رحمه الله : حیاۃ القلوب التي تموت بذکر الحي الذي لا یموت۔

10 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 119۔

’’حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مردہ دلوںکی حیات، اس ہستی کے ذکر سے ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘

11۔ قال الشیخ أبو الحسن الشاذلي رحمه الله : إذا ترک العارف الذکر علی وجه الغفلۃ نفساً أو نفسین قیض الله تعالی له شیطاناً فهو له قرین۔

11 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 306۔

’’شیخ ابو الحسن شاذلی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : عارف جب غفلت کی وجہ سے ایک یا دو سانسوں کے لئے ذکر چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط فرما دیتا ہے جو کہ اس کا ساتھی ہوتا ہے۔‘‘

12۔ قال مجاهد رَحِمَهُ الله : لا یکون الرجل من الذاکرین الله کثیرا حتی یذکر الله قائما، وقاعدا، ومضطجعا۔

12 : أخرجه ابن المبارک في کتاب الزهد : 280، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 3 / 283۔

’’حضرت مجاہد رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : انسان کا شمار اس وقت تک کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں میں ہوتا جب وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہوئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے۔‘‘

13۔ قال أبو العبَّاس : المؤمن یَقْوَی بذِکْر الله، والمنافق یقوی بالأکل۔

13 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 240۔

’’حضرت ابو عباس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : مومن اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ قوی ہوتا ہے اور منافق کھانے کے ساتھ قوی ہوتا ہے۔‘‘

14۔ قال محمَّد بن الفَضْل رَحِمَهُ الله : ذِکْر اللسان کَفَّاراتٌ ودرجات، وذِکْر القلب زُلَفٌ وقُرُبات۔

14 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 216۔

’’محمد بن فضل رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : زبان سے ذکر کرنا گناہوں کا کفارہ ہے اور بلندی درجات ہے اور دل کا ذکر قرب الٰہی کا سبب ہے۔‘‘

15۔ قال سهل بن عبد الله رَحِمَهُ الله : ما من یوم إلا والجلیل سبحانه ینادي : یا عبدي، ما أنصفتني، أذکرک وتنساني، وأدعوک إليَّ وتذهب إلی غیري، وأذهب عنک البلایا وأنت معتکف علی الخطایا، یا ابن آدم، ماذا تقول غداً إذا جئتني؟

15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 224۔

’’حضرت سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو دن گزرتا ہے حق تعالیٰ پکارتے ہیں : اے میرے بندے! تو نے مجھ سے انصاف نہیں کیا۔ میں تمہیں یاد کرتا ہوں مگر تو مجھے بھول جاتا ہے۔ میں تمہیں اپنی طرف بلاتا ہوں مگر تو دوسروں کی طرف جاتا ہے۔ میں تیرے مصائب دور کرتا ہوں مگر تو خطا کاری پر ڈٹا رہتا ہے۔ اے ابن آدم! کل قیامت کو جب تو میرے پاس آئے گا تو اپنی اس غفلت اور کوتاہی پر کیا عذر پیش کرے گا؟‘‘

16۔ قال المحاسبي رَحِمَهُ الله : علامۃ المحبّین کثرۃ الذکر للمحبوب علی طریق الدوام، لا ینقطعون ولا یملون ولا یفترون، وقد أجمع الحکماء علی أن من أحب شیئاً أکثر من ذکره، فذکر المحبوب هو الغالب علی قلوب المحبین لا یریدون به بدلاً ولا یبغون عنه حولاً ولو قطعوا عن ذکر محبوبهم لفسد عیشهم، وما تلذذ المتلذذون بشيء ألذ من ذکر المحبوب۔

16 : أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 495۔

’’حضرت محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : محبت کرنے والوں کی علامت محبوب کا ہمیشہ اور کثرت سے ذکر کرنا ہے، کہ نہ وہ اسے منقطع کریں، نہ تھکاوٹ محسوس کریں اور نہ اُکتائیں۔ دانا لوگ اس امر پر متفق ہیں کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ محبت کرنے والوں کے دلوں پر محبوب کا ذکر ہی غالب ہوتا ہے، وہ اس کے بدل یا اس سے پھر جانے کا ارادہ نہیں کرتے۔ اگر وہ محبوب کے ذکر کو چھوڑ دیں تو ان کی زندگی پریشانی کا شکار ہو جائے اور لذت حاصل کرنے والے محبوب کے ذکر سے زیادہ کسی چیز سے لذت حاصل نہیں کرتے۔‘‘

17۔ قال الإمام القشیري : الذکر علی نوعین : ذکرُ اللسان وذکرُ القلب۔ فذکرُ اللسان یصل به العبدُ إلی استدامةِ ذکرِ القلبِ۔ والتأثیرُ لذکر القلبِ؛ فإذا کان العبدُ ذاکراً بلسانهِ وقلبِه، فهو الکاملُ في وصفه في حال سلوکه۔

17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 221۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ذکر کی دو قسمیں ہیں : زبان کا ذکر اور دل کا ذکر۔ زبان کے ذکر کے ذریعے ہی انسان دل کے ذکر کو دائم رکھ سکتا ہے مگر(شخصیت پر) تاثیر دل کے ذکر کی ہوتی ہے۔ لهٰذا جو بندہ زبان اور دل دونوں سے ذکر کرتا ہو تو اس کی حالتِ سلوک اوصافِ کاملہ کی حامل ہے۔‘‘

18۔ عن أبي عمران أن رجلا أعتق مائۃ رقبۃ في ماله، فذکر ذلک بعض جلساء ابن مسعود له، فدعا له بخیر، وقال : ألا أخبرکم بأفضل من ذلک ؟ إیمان ملزوم باللیل والنهار، وأن لا یزال لسان أحدکم رطبا من ذکر الله۔

18 : أخرجه ابن المبارک في کتاب الزهد : 287۔

’’حضرت ابو عمران رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے مال میں سے سو غلام آزاد کئے، اس کے ہم نشینوں میں سے کسی نے یہ بات حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس سے بھی بڑی بات نہ بتاؤں؟ دن رات ایمان کو لازم پکڑنا اور یہ کہ تم میں سے ہر ایک کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved