Nadrat-un-Noor fi Fasl al-Tuhur

پانی کی طہارت کابیان

بَابٌ فِي طَهَارَةِ الْمَاءِ

{پانی کی طہارت کابیان}

الْقُرْآن

(1) اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَکُمْ بِهٖ وَیُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَo

(الأنفال، 8: 11)

جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لیے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِّ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔

(2) وَھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًا م بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ ج وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَھُوْرًاo

(الفرقان، 25: 48)

اور وہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، اور ہم ہی آسمان سے پاک (صاف کرنے والا) پانی اتارتے ہیں۔

الْحَدِیْث

28: 1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : لَا یَبُولَنَّ أَحَدُکُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا یَجْرِي، ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب البول في الماء الدائم، 1: 94، الرقم: 236، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1: 235، الرقم: 282، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب البول في الماء الراکد، 1: 18، الرقم: 69، والترمذي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء في کراہیۃ البول في الماء الراکد، 1: 100، الرقم: 68، والنسائي في السنن، کتاب الغسل والتیمم، باب ذکر نہي الجنب من الاغتسال في الماء الدائم، 1: 197، الرقم: 400، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1: 131، الرقم: 1503، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 14، الرقم: 18، والبیہقي في السنن الکبری، 1: 239، الرقم: 1071

حضرت ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے جو چلتا نہ ہو کہ پھر اسی سے غسل کرے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

29: 2. عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ :أَنَّہٗ نَهٰی أَنْ یُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاکِدِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1: 235، الرقم: 281، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1: 34، الرقم: 35، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا باب النہي عن البول في الماء الراکد 1: 124، الرقم: 343، وابن حبان في الصحیح، 4: 60، الرقم: 1250، وأبو عوانۃ في المسند، 1: 183، الرقم: 574، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1: 130، الرقم: 1500، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 14، الرقم: 20.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمع شدہ ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔

اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

30: 3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : لَا یَغْتَسِلْ أَحَدُکُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَقَالَ: کَیْفَ یَفْعَلُ یَا أَبَا هُرَیْرَۃَ؟ قَالَ: یَتَنَاوَلُہٗ تَنَاوُلًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَہ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ.

قَالَ الْبَیْهَقِيُّ: وَھُوَ مَحْمُوْلٌ عَلٰی مَاءٍ دَائِمٍ یَکُوْنُ أَقَلَّ مِنْ قُلَّتَیْنِ فَإِذَا اغْتَسَلَ فِیْهِ صَارَ مُسْتَعْمَلاً فَلَا یُمْکِنُ غَیْرُہٗ أَنْ یَّتَطَهَرَ فَأَمَرَ بِأَنْ یَّتَنَاوَلَہٗ تَنَاوُلاً لِئَلَّا یَصِیْرَ مَا یَبْقٰی فِیْهِ مُسْتَعْمَلاً.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النھي عن الاغتسال في الماء الراکد،1: 236، الرقم: 283، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الجنب ینغمس في الماء الدائم أیجزئہ،1: 198، الرقم: 605، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1: 49، الرقم: 93، وابن حبان في الصحیح، 4: 62، الرقم: 1252، والبیہقي في السنن الکبریٰ، 1: 237، الرقم: 1063

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے کوئی شخص حالتِ جنابت میں (جس پر غسل فرض ہو) جمع شدہ پانی کے اندر غسل نہ کرے۔ کسی شخص نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پھر وہ شخص کس طرح غسل کرے؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کسی چیز سے پانی لے اور باہر بیٹھ کر غسل کرے۔

اسے امام مسلم، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

امام بیہقی کہتے ہیں: اس حدیث کو اس حکم پر محمول کیا جائے گا کہ اگر وہ جمع شدہ پانی ’قلتین‘ کی مقدار سے کم ہو، اگر اس نے اس قلیل پانی میں غسلِ جنابت کر لیا تو وہ پانی مستعمل ہو گیا، بایں طور کسی دوسرے شخص کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس پانی سے طہارت حاصل کرے۔ سو حکم دیا کہ وہ شخص اس میں سے پانی لے کر استعمال کرے تاکہ باقی پانی مستعمل نہ ہو۔

31: 4. عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الْمَاءَ لَا یُنَجِّسُہٗ شَيئٌ إِلَّا مَا غَلَبَ عَلٰی رِیْحِهٖ وَطَعْمِهٖ وَلَوْنِهٖ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالدَّارَقُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الحیاض، 1: 174، الرقم: 521، وعبد الرزاق عن ابن سعد في المصنف، 1: 80، الرقم: 264، والدارقطني عن ثوبان رضی الله عنه في السنن، 1: 28، الرقم: 1، والطبراني في المعجم الکبیر، 8: 104، الرقم: 7503، والعیني في عمدۃ القاري، 3: 158، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 1: 15

وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ: إِنَّ الْمَاءَ طَاهِرٌ إِلَّا أَنْ تَغَیَّرَ رِیْحُہٗ أَوْ طَعْمُہٗ أَوْ لَوْنُہٗ بِنَجَاسَۃٍ تَحْدُثُ فِیْهِ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.

أخرجہ البیہقي في السنن الکبری، 1: 259، الرقم: 1159، وذکرہ العسقلاني في تلخیص الحبیر، 1: 15، والزیلعي في نصب الرایۃ، 1: 94۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: کوئی شے پانی کو ناپاک نہیں کرتی جب تک کہ وہ شے اس کی بو، اس کے ذائقے اور اس کے رنگ پر غالب نہ آ جائے۔

اس حد یث کو امام ابن ماجہ، عبد الرزاق، دار قطنی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: پانی اس وقت تک پاک ہوتا ہے جب تک کہ اس کی بو یا اس کا ذائقہ یا اس کا رنگ اس میں واقع ہونے والی نجاست کی وجہ سے متغیر نہ ہوجائے۔

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

32: 5. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی الله عنه، یَقُوْلُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَرْکَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهٖ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ بِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : هُوَ الطَّهُوْرُ مَاؤُہٗ الْحِلُّ مَیْتَتُہٗ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَمَالِکٌ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالشَّافِعِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَالْفِرَاسِيِّ، وَهٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَکْثَرِ الْفُقَهَائِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَابْنُ عَبَّاسٍ رضوان اللہ علیهم اجمعین لَمْ یَرَوْا بَأْسًا بِمَائِ الْبَحْرِ.

وَرَوَاهُ الْحَاکِمُ أَیْضًا عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ رضوان اللہ علیهم اجمعین، وَقَالَ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ وَشَوَاهِدُہٗ کَثِیْرَةٌ.

وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 361، الرقم: 8720، وأیضًا عن جابر بن عبد الله، 3: 373، الرقم: 15054، وأیضا عن عبد الله بن المغیرۃ، 5: 365، الرقم: 23145، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء بماء البحر، 1: 21، الرقم: 83، والترمذي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور، 1: 100-101، الرقم: 69، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ماء البحر، 1: 50، الرقم: 59، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الوضوء بماء البحر، 1: 136، الرقم: 386، ومالک في الموطأ، کتاب الطہارۃ، باب الطہور للوضوء، 1: 22، الرقم: 41، والشافعي في المسند، 1: 7، والدارمي في السنن، 1: 201، الرقم: 729، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1: 59، الرقم: 111، والحاکم في المستدرک، 1: 237-240، الرقم: 490-501، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 1: 215۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ایک شخص نے رسول الله ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور ہمارے پاس تھوڑا سا پانی ہوتا ہے۔ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جاتے ہیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: اس کا پانی پاک اور پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔

اِسے امام احمد، ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مالک اور شافعی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام مالک کے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا ہے: اس باب میں حضرت جابر اور فراسی رضی اللہ عنہما سے بھی مرویات ہیں اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اکثر فقہاء صحابہ، جن میں حضرت ابو بکر، عمر فاروق اور (عبد الله) بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ہیں، کا مسلک یہی ہے کہ دریا اور سمندر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

امام حاکم نے اسے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت (عبد الله) بن عباس اور حضرت جابر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی روایت کیا ہے۔ نیز فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور اس روایت کے کثیر شواہد ہیں۔

امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

33: 6. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّهٖ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَیْتَۃُ الْبَحْرِ حَلَالٌ، وَمَاؤُہٗ طَهُوْرٌ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالدَّارَقُطْنِيُّ.

أخرجہ الحاکم في المستدرک علی الصحیحین،1: 240، الرقم: 501، والدارقطني في السنن، 1: 27، الرقم: 71

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: سمندر کا مردار(مچھلی) حلال اور پانی پاک ہے۔

اِسے امام حاکم اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

34: 7. عَنْ أَبِي جُحَیْفَۃَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ یَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِهٖ فَیَتَمَسَّحُوْنَ بِهٖ، فَصَلَّی النَّبِيُّ ﷺ الظُّھْرَ رَکْعَتَیْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ، وَبَیْنَ یَدَیْهِ عَنَزَةٌ، وَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی: دَعَا النَّبِيُّ ﷺ بِقَدَحٍ فِیْهِ مَائٌ، فَغَسَلَ یَدَیْهِ وَوَجْهَہٗ فِیْهِ وَمَجَّ فِیْهِ، ثُمَّ قَالَ لَھُمَا: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلٰی وُجُوْھِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1: 80، الرقم: 185، وأیضًا في کتاب الصلاۃ في الثیاب، باب الصلاۃ في الثوب الأحمر، 1: 147، الرقم: 369، وأیضًا في کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ والإقامۃ وکذالک بعرفۃ وجمعٍ، 1: 227، الرقم: 607، وأیضًا في کتاب المناقب، باب صفۃ النبي ﷺ، 3: 1304، الرقم: 3373، وأیضًا في کتاب اللباس، باب التشمیر في الثیاب، 5: 2182، الرقم: 5449، وأیضًا في کتاب الوضوء، باب الغسل والوضوء في المخضب والقدح والخشب والحجارۃ، 1: 83، الرقم: 193، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین رضی اللہ عنہما عنہما، 4: 1943، الرقم: 2497

وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه، قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْهَاجِرَةِ فَصَلّٰی بِالْبَطْحَائِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ وَنَصَبَ بَیْنَ یَدَیْهِ عَنَزَةً وَتَوَضَّأَ فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهٖ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب السترۃ بمکۃ وغیرھا 1: 188، الرقم: 479، والبیھقي في السنن الکبری، 1: 235، الرقم: 1052

حضرت ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ ﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پھر اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی۔ پھر اُن دونوں حضرات (یعنی حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہما) سے فرمایا: اس میں سے پی لو اور اسے اپنے چہروں اور سینوں پر بھی ڈال لو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

ایک اور روایت میں حضرت ابو حُجَیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے بطحاء میں ظہر و عصر کی دو دو رکعات پڑھیں اور آپ ﷺ کے سامنے برچھی نصب کی گئی۔ آپ ﷺ نے وضو کیا تو لوگ آپ ﷺ کے وضو کا پانی اپنے اوپر ملنے لگے۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

35: 8. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ فِي قُبَّۃٍ حَمْرَائَ مِنْ أَدَمٍ وَرَأَیْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوئَ النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّاسُ یَبْتَدِرُونَ الْوَضُوئَ فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَیْئًا تَمَسَّحَ بِهٖ وَمَنْ لَمْ یُصِبْ مِنْهُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، 5: 2200، کتاب اللباس، باب القبۃ الحمراء من أدم، الرقم: 5521، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ المصلي، 1: 360، الرقم: 503، وأحمد بن حنبل في المسند، 4: 308، الرقم: 18782، وأبوعوانۃ في المسند، 1: 387، الرقم: 1408، والطبراني في المعجم الکبیر، 22: 120، الرقم: 307.

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے: میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ چمڑے کے سرخ قبے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ حضورنبی اکرم ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر آئے تو لوگ وضو کے پانی کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے تھے جس کو کچھ مل جاتا وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور جس کو اس میں سے نہ ملتا وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری سے اپنے ہاتھ تر کرلیتا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حُکْمُ الْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ

مستعمل پانی کا حکم

ثَبَتَ مِنَ الْأَحَادِیْثِ الْمَذْکُوْرَةِ سَابِقًا بِأَنَّ الْمَاءَ الْمُسْتَعْمَلَ طَاهِرٌ وَإِلَّا فَلَمْ یَکُنْ یُسْتَعْمَلُ لِلتَّبَرُّکِ وَالتَّمَسُّحِ مِنَ الصَّحَابَةِ رضوان اللہ علیهم اجمعین، فَھٰکَذَا قَالَتِ الْحَنَفِیَّۃُ.

قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ: وَقَوْلُہٗ: یَأْخُذُونَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهٖ کَأَنَّهُمُ اقْتَسَمُوا الْمَاءَ الَّذِی فَضَلَ عَنْهُ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونُوا تَنَاوَلُوا مَا سَالَ مِنْ أَعْضَائِ وُضُوئِهٖ ﷺ وَفِیهِ دَلَالَةٌ بَیِّنَةٌ عَلٰی طَهَارَةِ الْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ.

العسقلاني في فتح الباري، 1: 295

وَقَالَ الْعَیْنِيُّ فِي شَرْحِ هٰذَا الْحَدِیْثِ: فِیْهِ الدَّلَالَۃُ الظَّاهِرَۃُ عَلٰی طَهَارَةِ الْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ إِذَا کَانَ الْمُرَادُ أَنَّهُمْ کَانُوْا یَأْخُذُونَ مَا سَالَ مِنْ أَعْضَائِهٖ ﷺ، وَإِنْ کَانَ الْمُرَادُ أَنَّهُمْ کَانُوا یَأْخُذُونَ مَا فَضَلَ مِنْ وُضُوئِهٖ ﷺ فِي الْإِنَائِ فَیَکُوْنُ الْمُرَادُ مِنْهُ التَّبَرُّکَ بِذٰلِکَ، وَالْمَائُ طَاهِرٌ فَازْدَادَ طَهَارَةً بِبَرَکَةِ وَضْعِ النَّبِيِّ ﷺ، یَدَهُ الْمُبَارَکَۃَ فِیهِ.

العیني في عمدۃ القاري، 3: 75

احادیث مذکورہ سے ثابت ہوا کہ مستعمل پانی پاک ہے، ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے یہ پانی حصول برکت کے لیے استعمال نہ کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب میں فتویٰ مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: اور حدیث مبارک کے الفاظ کہ وہ آپ ﷺ کے وضو کے بقیہ پانی کو حاصل کرتے گویا وہ اس پانی کو باہم تقسیم کر لیتے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ اس پانی کو بھی لے لیتے ہوں جو آپ ﷺ کے اعضاء مبارکہ سے دورانِ وضو بہہ رہا ہوتا تھا۔ اور اس میں مستعمل پانی کے پاک ہونے کی واضح دلیل ہے۔

علامہ بدر الدین عینی اِس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث میں مستعمل پانی کی طہارت پر واضح طور پر دلالت ہے جب یہاں مراد یہ ہو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے اعضائِ وضو سے بہنے والا پانی لے رہے تھے اوراگر یہ معنٰی ہو کہ وہ برتن سے آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی حاصل کر رہے تھے تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ وہ اس سے برکت حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں یہ پانی پاک ہے اور حضورنبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس کی برکت سے اس کی طہارت میںمزید اضافہ ہوگیا۔

36: 9. عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، قَالَ: وَهُوَ الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي وَجْهِهٖ وَهُوَ غُلَامٌ مِنْ بِئْرِهِمْ، وَقَالَ عُرْوَۃُ عَنِ الْمِسْوَرِ وَغَیْرِهٖ یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَہٗ وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس 1: 81، الرقم: 186، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ وإنہ إذا لم یحسن الفاتحۃ ولا أمکنہ تعلمہا قرأ ما تیسر لہ من غیرھا، 1: 295، الرقم: 394، وأبو عوانۃ في المسند، 2: 124، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 374، الرقم: 3766

حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہیـ اور یہ وہ صحابی ہیں کہ جب یہ کم سن تھے تو ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے کنوئیں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی مبارک فرمائی تھی، عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی روایت کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب وضو فرماتے توقریب ہوتا کہ لوگ آپ ﷺ کے وضو کا گرنے والا پانی لینے کے لیے آپس میں جھگڑ پڑتے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

37: 10. عَنْ جَابِر رضی الله عنه قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا مَرِیضٌ، فَدَعَا بِوَضُوئٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ نَضَحَ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهٖ فَأَفَقْتُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الأخوات والإخوۃ، 6: 2479، الرقم: 6362

حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میرے پاس حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے جبکہ میں بیمار تھا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوا کر وضو فرمایا اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر چھڑکا تو مجھے افاقہ ہو گیا۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

38: 11. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: مَرِضْتُ، فَجَائَ نِي رَسُولُ اللهِ ﷺ یَعُودُنِي وَأَبُوبَکْرٍ وَهُمَا مَاشِیَانِ فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوئَ ہٗ عَلَيَّ فَأَفَقْتُ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ماکان النبي یسأل مما لم ینزل علیہ الوحي، 6: 2666، الرقم: 6879، ومسلم في الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الکلالۃ، 3: 1235، الرقم: 1616، وأبو داود في السنن، کتاب الفرائض، باب في الکلالۃ، 3: 119، الرقم: 2886، والترمذي في السنن، کتاب الفرائض عن رسول الله ﷺ، باب میراث الأخوات، 4: 417، الرقم: 2097، وأبو عوانۃ في المسند، 3: 437، الرقم: 5601

قَالَ الْإِمَامُ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ هٰذَا الْحَدِیْثِ: قَوْلُہٗ: ’’فَأُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهٖ فَأَفَقْتُ) الْوَضُوئُ هُنَا بِفَتْحِ الْوَاوِ الْمَائُ الَّذِي یُتَوَضَّأُ بِهٖ وَفِیهِ التَّبَرُّکُ بِآثَارِ الصَّالِحِینَ وَفَضْلُ طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ وَنَحْوِهِمَا وَفَضْلُ مُؤَاکَلَتِهِمْ وَمُشَارَبَتِهِمْ وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَفِیهِ ظُهُورُ آثَارِ بَرَکَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَاسْتَدَلَّ أَصْحَابُنَا وَغَیْرُهُمْ بِهٰذَا الْحَدِیثِ عَلٰی طَهَارَةِ الْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ فِي الْوُضُوئِ وَالْغُسْلِ.

النووي في شرحہ علی صحیح مسلم، 11: 55

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں حضرات پیدل میری عیادت کے لیے تشریف لائے،(اس وقت) مجھ پر بیہوشی طاری تھی، رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر چھڑکا تو مجھے ہوش آ گیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

شارح ’صحیح مسلم‘ امام نووی اس حدیث کی شرح میں بیان کرتے ہیں: راوی کا بیان کہ مجھ پر بیہوشی طاری تھی، آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور اس کا بچا ہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا، پس مجھے ہوش آگیا، وضو یہاں واؤ کے فتحہ کے ساتھ اس پانی کو کہتے جس سے وضو کیا جائے اور اس میں بزرگوں کے آثار سے برکت حاصل کرنے، ان کے کھانے اور پانی کی فضیلت ان کے ایک دوسرے کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے کی فضیلت کا بیان ہے اور اور اس میں رسول الله ﷺ کی برکت کے آثار کا ظہور بھی ہے، اور ہمارے اصحاب (شوافع) اور دوسروں نے اس حدیث سے وضو اور غسل کے مستعمل پانی کی طہارت پر استدلال کیا ہے۔

39: 12. عَنْ الْجَعْدِ قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ یَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِی إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهٖ ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهٖ فَنَظَرْتُ إِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَیْنَ کَتِفَیْهِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1: 81، الرقم: 187، ومسلم، في الصحیح، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتم النبوۃ وصفۃ ومحلہ من جسدہ، 4: 1823، الرقم: 2345، والترمذي في السنن، کتاب المناقب عن رسول الله، باب في خاتم النبوۃ، 5: 602، الرقم: 3643، والنسائي في السنن الکبری، 4: 361، الرقم: 7518، والطبراني في المعجم الکبیر، 7: 157، الرقم: 6682

حضرت جعد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ میری خالہ جان مجھے حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر وضو کیا تو میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پیا۔ پھر آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کی زیارت کی جو کبوتروں کے انڈے جیسی تھی۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved