‘Aqida Khatm-e-Nubuwwat

باب 1 :مسئلہ حیات و ممات مسیح علیہ السلام

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مسئلہ حیات و مماتِ مسیح علیہ السلام کا براهِ راست مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں اور بفرضِ محال اگر قرآن و سنت کی تصریحات سے حیات مسیح نہ بھی ثابت ہو سکے تب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے میں شک کا ذرہ بھر احتمال نہیں۔ آپ ﷺ ہی سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کے اجراء کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ کوئی جواز، ایسا دعویٰ کرنے والا نصوصِ قرآن و سنت کا صریح منکر اور کافر و کذاب ہے۔

عالمِ اسلام کے جمہور علماء کا روزِ اول سے یہی مسلک رہا ہے اور بحمداللہ آج بھی وہ اس پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جو بنی اسرائیل کی اصلاح و ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ان کی پیدائش بھی معجزے کے طور پر ہوئی اور وہ جسم و روح کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے اور قرب قیامت کی علامتِ کبریٰ کے طور پر دوبارہ آسمان سے زمین پر اتریں گے۔

یہ بات نفس الامر کے طور پر دلیل قطعی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن حکیم سے ثابت ہے اور اس کی توضیح و تائید میں احادیث متواتر کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ حیاتِ مسیح کی تائید و حمایت میں علمائے حق نے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر اتنے پرزور استدلال سے پیش کیا ہے کہ قادیانی مبلغ اس کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرتے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریہ وفات مسیح کے کئی پہلو زیربحث لائے جا سکتے ہیں مگر طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف اتنا کہنے پر اکتفا کریں گے کہ مرزا صاحب کا موقف اس مسئلے پر متضاد نظریات پر مبنی ہے۔ اپنے دورِ اول میں وہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام کے قائل تھے اور اس پر ان کی تحریریں شاہد ہیں۔ اس سلسلے میں ’’براہینِ احمدیہ (ص: 498، 499، 505) ‘‘ اور ’’روحانی خزائن (ص: 57، 58) ‘‘ کا مطالعہ قارئین کے لیے چشم کشا ہوگا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرزا نے قرآن حکیم اور کتبِ حدیث میں بیان کردہ اس نظریے کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’واضح ہو کہ اس امر سے دنیا میں کسی کو انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا اور یہ پیشین گوئی بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ کتبِ حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو کہ ایک منصف مزاج کی تسلی کے لیے کافی ہے اور بالضرورت اس قدرِ مشترک پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ایک مسیح موعود آنے والا ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، شہادۃ القرآن: 4، مندرجہ رو حانی خزائن، 6: 298

حیاتِ مسیح علیہ السلام سے متعلق قرآنی عقیدہ

سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اللہ رب العزت کے وہ جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جو حضورنبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے پونے چھ سو سال قبل قومِ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے، جب یہودیوں نے انہیں صلیب پر لٹکانے اور قتل کرنے کا درپردہ منصوبہ بنایا تو اللہ عزوجل نے ان کے منصوبے اور سازش کو اس طرح ناکام بنا دیا کہ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سخت دشمن اور آپ کے منصوبہ قتل میں شامل ایک یہودی کی صورت کو بدل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت جیسا کر دیا۔ آپ ںکے دشمن یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے شبہ میں اسے پکڑا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ صرف یہ کہ مصلوب ہونے سے بچ گئے بلکہ بطور معجزہ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔

احادیث میں موجود حضور نبی اکرم ﷺ کی پیشین گوئیوں کے مطابق قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس حال میں زندہ زمین پر تشریف لائیں گے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ نمازِ فجر کے وقت دمشق کی مشرقی جانب جامع مسجد میں آپ کا نزول ہو گا، دجال کا قتل آپ کے ہاتھوں ہو گا، آپ کی شادی اور اولاد ہو گی بالآخر ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ‘‘ کے تحت آپ کا طبعی وصال ہوگا اور تاجدار کائنات حضور نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں گنبد خضریٰ کے اندر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کا اجماعی اور متفق علیہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے مطابق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی وفات نہیں ہوئی اور وہ آسمان سے زندہ زمین پر اتریں گے۔ ذیل میں آیات مبارکہ کی روشنی میں حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا جاتا ہے:

1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَی اللهِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ ج اٰمَنَّا بِاللهِ ج وَاشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَo وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ ط وَاللهُ خَيْرُ الْمٰکِرِيْنَo

آل عمران، 3: 52-54

’’پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقینا مسلمان ہیںo اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo پھر (یہودی) کافروں نے (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) خفیہ سازش کی اور اللہ نے (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لیے) مخفی تدبیر فرمائی، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہےo‘‘

اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

أما مکرہم بعیسٰی علیہ السلام فھو أنّہم ہموا بقتلہ وأما مکر اللہ تعالٰی بہم ففیہ وجوہ الأوّل مکر اللہ تعالٰی بہم ہو أنّہ رفع عیسٰی علیہ السلام إلی السماء وذلک أنّ ملک الیہود أراد قتل عیسٰی علیہ السلام وکان جبریل علیہ السلام لا یفارقہ ساعۃ وہو معنی قولہ {وَاَيَّدْنٰـهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ}(1) فلمّا أرادوا ذلک أمرہ جبریل علیہ السلام أن یدخل بیتا فیہ روزنۃ فلمّا دخلوا البیت أخرجہ جبریل علیہ السلام من تلک الروزنۃ وکان قد ألقی شبہہ علی غیرہ فأخذ وصلب فتفرق الحاضرون ثلاث فرق، فرقۃ قالت: کان اللہ فینا فذہب وأخری قالت: کان ابن اللہ، والأخری قالت: کان عبد اللہ ورسولہ، فأکرمہ بأنّ رفعہ إلی السماء وصار لکل فرقۃ جمع فظہرت الکافرتان علی الفرقۃ المؤمنۃ إلی أن بعث اللہ تعالٰی محمدا ﷺ وفي الجملۃ فالمراد من مکر اللہ بہم أن رفعہ إلی السماء وما مکنہم من إیصال الشرّ۔ (2)

(1) البقرۃ، 2: 253
(2) رازی، التفسیر الکبیر، 8: 58

’’پس یہود کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مکر یہ تھا کہ انہوں نے ان کو دھوکے سے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مکر کی جو تدبیر فرمائی اس کی کئی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا جبکہ حضرت جبریل علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمان - {اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی} - کا یہی مطلب ہے۔ پس جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کو ایک مکان میں داخل ہونے کا کہا۔ اس مکان میں ایک روشن دان تھا، جب وہ اس مکان میں داخل ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس روشن دان سے نکال لیا اور آپ کی شبیہ ایک اور شخص پر ڈال دی۔ پس یہود نے اسے پکڑا اور اسے (عیسیٰ سمجھ کر) صلیب پر لٹکا دیا۔ پس اس پر وہاں پر موجود لوگوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان (معاذ اللہ ) خدا تھا، دوسرے نے کہا: (معاذ اللہ ) وہ خدا کا بیٹا تھا، تیسرے نے کہا: وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ پس پہلے دونوں گروہ باطلہ تیسرے مومن گروہ پر غالب آ گئے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو معبوث فرمایا۔ المختصر یہود کے ساتھ اللہ کے مکر کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ دھوکہ دہی سے باز رکھا۔‘‘

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فلمّا أحاطوا بمنزلۃ وظنّوا أنّہم قد ظفروا بہ نجاہ اللہ تعالٰی من بینہم ورفعہ من روزنۃ ذلک البیت إلی السماء وألقی اللہ شبہہ علی رجل ممن کان عندہ في المنزل فلمّا دخل أولئک أعتقدوہ في ظلمۃ اللیل عیسی فأخذوہ وأہانوا وصلبوا ووضعوا علی رأسہ الشوک وکان ہذا من مکر اللہ بہم فإنّہ نجی نبیّہ ورفعہ من بین أظہرہم۔

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 366

’’جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کر لیا کہ وہ آپ پر غالب آ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس شخص پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی پر لٹکا دیا اور اس کے سر پر کانٹے رکھ دیئے۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہی تدبیر فرمائی کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔‘‘

2۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo

آل عمران، 3: 55

’’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo‘‘

اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:

معنی قولہ: إنّي متوفیک أي متمم عمرک فحینئذ أتوفاک فلا أترکہم حتّی یقتلوک بل أنا رافعک إلی سمائي ومقربک بملائکتي وأصونک عن أن یتمکنوا من قتلک وہذا تأویل حسن۔

رازی، التفسیر الکبیر، 8: 60

’’اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (اِنِّي مُتَوَفِّيْکَ) کا معنی یہ ہے کہ (اے عیسیٰ!) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لیے نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں تجھے آسمان اور ملائکہ کے مسکن کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچا لوں گا اور یہ اس آیت کی نہایت احسن تفسیر ہے۔‘‘

3۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ ج وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ط وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَکٍّ مِّنْهُ ط مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِيْنًا مo بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ ط وَکَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَکِيْمًاo

النساء، 4: 157، 158

’’اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعویٰ) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) ، اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیاo بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اللہ غالب حکمت والا ہےo‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اُٹھا لیا۔ اس آیت کے بعد کسی تاویل و تفسیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

مماتِ مسیح علیہ السلام سے متعلق قادیانی عقیدہ

مرزا غلام احمد قادیانی نے چونکہ اپنے دعویٰ نبوت کے ابتدائی مراحل میں دعویٰ مسیحیت کیا تھا، اس لیے انہوںنے مماتِ مسیح کا عقیدہ گھڑا چنانچہ قادیانیوں کے نزدیک یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختہ صلیب پر لٹکا دیا اور وہ آپ کو مردہ سمجھ کر بھاگ گئے۔ آپ غشی کی حالت میں بیدار ہو کر براستہ افغانستان کشمیر آ گئے جہاں سری نگر میں ایک سو پچیس سال کی عمر کو پہنچ کر فوت ہو گئے۔ وہاں پر’’ محلہ خان یار‘‘میں آپ کو دفن کیا گیا۔ اس لیے کشمیر میں ایک مقام کو آپ کے مزار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رفع درجات اور رفع روحانی کا مقام عطا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قادیانیوں کا یہ خود ساختہ عقیدہ ہے جس کا ثبوت نہ قرآن و سنت سے ملتا ہے اور نہ ہی تاریخی شواہد سے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین اور مبلغین کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں سے اصل مسئلہ یعنی مرزا کے جھوٹے دعویٰ نبوت پر گفتگو کرنے کی بجائے انہیں مماتِ مسیح کے بارے میں اپنے خودساختہ تصور میں اُلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے، اور اگر زندہ ہیں تو ان کے رفع سماوی کو رفع جسمانی کی بجائے رفع روحانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مہدی و عیسیٰ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔

خلط مبحث کی قادیانی چال

حقیقت میں ان سب باتوں کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے ہے نہ کہ مرزا قادیانی کی نبوت سے۔ بلکہ وہ موضوع ہی الگ ہے۔ اصل موضوع تو مرزا صاحب کا جھوٹا دعویٰ نبوت ان کے کفریہ عقائد، جھوٹی پیشین گوئیاں اوران کے سیرت و کردار کے بارے میں حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے، مگر جب قادیانیوں سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس سے میلوں دور بھاگتے ہیں۔ یہ منطق عقل و فہم سے ماورا ء ہے کہ کوئی شخص کسی کو نبی مانے مگر اس کے اسوہ اور سیرت و کردار پر گفتگو کی جائے تو وہ اس کو چھپانے لگے اور اگر کوئی زیادہ اصرار کرے تو مشتعل اور سیخ پا ہو جائے۔

یہاں پرایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کے پیروکار اصل موضوع پر گفتگو کرنے کی بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و ممات کو موضوعِ بحث کیوں بناتے ہیں جس کا فی الواقعہ اصل موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب کی سیرت و کردار کے حوالے سے جو انمٹ نقوش تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں، ان پر خلط مبحث سے پردہ ڈالنا قادیانیوں کا شیوہ بن چکا ہے جو دراصل مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کی بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کے بارے میں غیر متعلقہ بحث شروع کر کے وہ اپنے مخاطبین و سامعین کے دل میں تشکیک و التباس پیدا کر نے اور انہیں اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں، وہ دوبارہ آسمان سے زندہ نہیں اتریں گے اور وہ احادیث رسول ﷺ جن میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ نزول کا ذکر ہے ان سے وہ مرزا غلام احمد قادیانی مراد لیتے ہیں۔

ایک تمثیل سے وضاحت

یہاں اتمامِ حجت کے لیے ہم مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ اور دلیل کے کھوکھلے پن کو ایک تمثیل سے واضح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں سید جمال الدین افغانی ہوں۔ دوسرا آدمی اس سے دعویٰ کا ثبوت مانگتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنا جمال الدین افغانی ہونا ثابت کرے مگر بجائے وہ اپنا جمال الدین افغانی ہونا ثابت کرنے کے وہ سائل کو اس بحث میں اُلجھا دیتا ہے اور اپنا زور استدلال اس پر صرف کرنے لگتا ہے کہ جمال الدین افغانی زندہ ہے یا مر گیا ہے حالانکہ جمال الدین افغانی کے مرنے اور زندہ رہنے سے مدعی کا جمال الدین افغانی ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس تمثیل سے قطع نظر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آج سے دو ہزار سال قبل زمین پر حیات ظاہری میں موجود تھے اور آج بھی زندہ آسمان پر موجود ہیں اور الحمدللہ ہمارا یہ عقیدہ قرآن و سنت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے اس کا مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اگر کوئی خودساختہ دلائل سے معاذ اللہ ان کی ممات ثابت بھی کر دے تو دونوں حالتوں کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی ہے۔ وہ زندہ اُتریں گے یا دوبارہ پیدا ہوں گے۔ اسے توحضور نبی اکرم ﷺ کی بیان کردہ احادیث کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونا قرآن و حدیث کے کس فرمان سے ثابت ہے؟ اصل مسئلہ حیات و وفاتِ مسیح کا نہیں بلکہ مرزا کا دعویٰ نبوت ہے۔ پس مسلمانوں سے جب بھی کوئی قادیانی مبلغ حیات و مماتِ مسیح کی بحث چھیڑے تو اس موضوع پر گفتگو کی بجائے اصل موضوع یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے ردّ کی طرف پلٹنا چاہیے۔ اس اُصولی موقف کے بعد ہم قادیانیوں کے دعویٰ مماتِ مسیح پر اُن کے بے بنیاد استدلال کو تفصیل سے واضح کر کے اس کا بطلان کریں گے۔

مماتِ مسیح علیہ السلام پر قادیانی استدلال اور اس کا ردّ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قادیانی درج ذیل آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں:

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo

آل عمران، 3: 55

’’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo‘‘

مذکورہ آیتِ کریمہ میں قادیانیوں کے باطل استدلال کا محل دو الفاظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ اور ’’رَافِعُکَ‘‘ ہیں۔ اِنہی دو الفاظ سے وہ اپنی من مانی تاویلات کے ذریعے مماتِ مسیح کا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ سے وفات مراد لے کر وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا اور اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ جس بات کا اظہار فرمائے اس کو پورا نہ کرے یعنی وفات نہ دے نیز لفظ ’’رَافِعُکَ‘‘ کی وہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو آسمان پر اُٹھا لیا نہ کہ جسم کو چنانچہ آپ کا رفعِ سماوی اُن کے نزدیک رفعِ روحانی ہے نہ کہ جسمانی۔ قادیانیوں کے اس تصور کو ردّ کرنے سے پہلے قرآنِ مجید کی روشنی میں ہم لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا معنی و مفہوم متعین کریں گے۔

لفظ مُتَوَفِّيْکَ کا معنی و مفہوم

لفظِ متوفی وَفیَ، یَفِي، وَفَاءٌ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے پورا دینا یا پورا کرنا۔ قرآنِ حکیم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً:

  1. وعدہ پورا کرنا
  2. اجر یا بدلہ پورا دینا
  3. عمر پوری کرنا
  4. قبضے میں لے لینا
  5. نذر پوری کرنا
  6. ناپ تول پورا کرنا

چنانچہ’’وفاء یا وفاۃ‘‘کا حقیقی معنی موت نہیں ہے بلکہ پورا کرنا ہے۔ کسی کی موت کو بطورِ مجاز وفات اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ موت آنے پر اس کی عمر پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ اب ہم مذکورہ بالا معانی پر بطور دلیل قرآنی آیات پیش کریں گے۔

(1) وعدہ پورا کرنا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۔

المائدہ، 5: 1

’’اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

وَاُوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo

الإسراء، 17: 34

’’اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ کچھ ہو گیo‘‘

مذکورہ بالا دونوں آیات میں اَوْفُوا - جو لفظ وفاء ہی سے مشتق ہے - کا معنی پورا کرو دیا گیا ہے۔

(2) اجر یا بدلہ پورا دینا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

1۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo

البقرہ، 2: 281

’’پھر ہر شخص کو جو کچھ عمل اس نے کیا ہے اس کی پوری پوری جزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہو گاo‘‘

2۔ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo

آل عمران، 3: 25

’’اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہو گا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo‘‘

3۔ وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّيْھِمْ اُجُوْرَھُمْ۔

آل عمران، 3: 57

’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو ( اللہ تعالیٰ) اُن کو پورا پورا اجر دے گا۔‘‘

4۔ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔

آل عمران، 3: 185

’’اور بے شک قیامت کے دن تمہیںپورا پورا اجر دیا جائے گا۔‘‘

5۔ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍo

الزمر، 39: 10

’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا دیا جائے گاo‘‘

مذکورہ بالا تمام آیات میں وارد ہونے والے الفاظ تُوَفَّوْنَ، وُفِّیَتْ، یُوَفَّی لفظ وفاء سے مشتق ہیں اور پورا کرنا، پورا ہونا کے معنی دے رہے ہیں۔

(3) نذر پوری کرنا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ۔

الدھر، 76: 7

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں بھی لفظ وفاء کا مشتق ’’یُوْفُونَ‘‘پورا کرنا کے معنی میں آیا ہے۔

(4) ناپ تول پورا کرنا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاَوْفُوْا الْکَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ۔

الانعام، 6: 152

’’اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کیا کرو۔‘‘

اس آیت کریمہ میں بھی لفظ اَوْفُوْا - جو وفاء سے مشتق ہے - پورا کرنا کے معنی میں آیاہے۔

(5) قبضے میں لے لینا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

1۔ وَھُوَ الَّذِيْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ وَیعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِيْهِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی۔

الانعام، 6: 60

’’اور وہی تو ہے جو تمہیں رات کو قبضہ میں لیے لیتا ہے (تم پر نیند طاری ہو جاتی ہے) اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو وہ جانتا ہے پھر تم کو (نیند سے) دن میں اُٹھا دیتا ہے۔ (چلاتا پھراتا ہے) تاکہ معینہ وقت پورا ہو۔‘‘

2۔ اَللهُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَيْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلَ الْاُخْرٰٓی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔

الزمر، 39: 42

’’ اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان (جانوں) کو بھی جن پر موت طاری نہیں ہوئی، نیند کے وقت کھینچ لیتا ہے۔ پھر ان (جانوں) کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر کر چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو ایک وقت معین تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

ان آیتِ کریمہ میں بھی ’’وفاء‘‘سے مشتق لفظ ’’یتوفّی‘‘کے معنی موت نہیں بلکہ قبضہ میں لے لینا کے ہیں۔

موت اور وفات میں فرق

مذکورہ آیت کریمہ میں معلوم ہوا کہ موت اور وفات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ’’یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ‘‘ میں وفات تو ہے مگر موت نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔ مگر پھر بیداری کے وقت لوٹا دیتے ہیں جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے اور روح کا قبضہ میں آنا اور وفات پانا ایک الگ چیز ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا، روح کا قبضے میں لے لینا، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت کا وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔ اپنے قبضہ میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے اور عرصۂ حیات پورا کرنا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔ جب قرآن مجید سے وفات کا معنی عمر پوری کرنا اور قبضہ میں لے لینا ثابت ہے تو اب لغت میں اس لفظ سے موت کے معنی تلاش کرنا نصِ قرآنی کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ پس اس آیتِ کریمہ میں ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

1۔ اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرا عرصۂ حیات پورا کرنے والا ہوں خواہ یہ یہودی جتنے بھی منصوبے بنائیں ان کے باعث تیری موت واقع نہیں ہو گی بلکہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ میں اپنی قدرتِ کاملہ سے تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔

2۔ دوسرا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے اپنے قبضۂ قدرت اور حفاظت میں لے لوں گا وہ اس طرح کہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔ یہ جتنی بھی تجھے صلیب پر چڑھانے کی سازشیں تیار کرتے پھریں ناکام و نامراد ہوں گے۔

چنانچہ ثابت ہوا کہ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘میں وفات بمعنی موت نہیں اور جب وفات موت نہیں تو ’’وَرَافِعُکَ‘‘ سے مراد رفع روح اور رفع درجات نہیں بلکہ اس سے مراد کسی زندہ شخصیت کو معجزةً جسمانی طور پر اُوپر اُٹھا لینا ہے، بصورت دیگر لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ میں اگر وفات بمعنی موت بھی (بطور مجاز) مراد لے لیا جائے، جس طرح قادنیوں کا موقف ہے تو اس سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں ’’اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ !بے شک میں موت دینے والا ہوں اور تجھے میں جب چاہوں گا موت دوںگا۔ یہ تجھے قتل کرنے کے چاہے جتنے منصوبے اور سازشیں تیار کریں وہ تجھے موت نہیں دے سکتے۔

لفظ مُتَوَفِّيْکَ سے مماتِ مسیح کے قادیانی استدلال کا ردّ

مذکورہ قرآنی آیات سے ہم یہ ثابت کر چکے کہ وفات کا حقیقی معنی موت نہیں بلکہ پورا پورا اجر یا بدلہ دینا ہے جبکہ مجازی طور پر لوگ وفات کو موت کے ہم معنی کرتے ہیں۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک لفظ کا ایک حقیقی معنی ہو اور دوسرا مجازی تو حقیقی معنی کو مجازی معنی پر ترجیح دی جائے گی۔ ہاں اگر کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جس کی وجہ سے حقیقی معنی مراد لینا متعذر اور مشکل ہو تو پھر مجازی معنی مراد لیا جا سکتا ہے مگر اس مقام پر ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ میں ایسا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے حقیقی معنی متعذر ہو اس لیے یہاں پر مجازی معنی مراد نہیں لیا جائے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ سے ممات مسیح ثابت نہیں ہوتی چنانچہ شارحِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إنّ عیسٰی لم یمت وإنّہ راجع إلیکم قبل یوم القیامۃ۔

قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 3: 202

’’بے شک عیسیٰ علیہ السلام پر موت واقع نہیں ہوئی اور وہ تمہاری طرف قیامت بپا ہونے سے پہلے دوبارہ آئیں گے۔‘‘

سیاق و سباقِ کلام سے لفظ مُتَوَفِّيْکَ کا معنی و مفہوم

قرآنِ مجید کے کسی مقام کو اس وقت تک سمجھنا مشکل ہے جب تک اس کے سیاق و سباق کو نہ دیکھا جائے۔ سو لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا معنی و مفہوم سمجھنے کے لیے سورہ آل عمران کی آیت: 52 سے لے کر آیت: 55 تک کا پورا مضمون اپنے مفہوم کے اعتبار سے دیکھنا ہو گا۔

چنانچہ آیت نمبر 52 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا اَحَسَّ عِیسٰی مِنْهُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْ اِلَی اللهِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ اٰمَنَّا بِاللهِ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo

آل عمران، 3: 52

’’پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقینا مسلمان ہیںo‘‘

مذکورہ آیت کریمہ میں دو جملے قابل غور ہیں:

1۔ فَلَمَّا اَحَسَّ عِیسٰی مِنْهُمُ الْکُفْرَ…جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا۔

2۔ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْ اِلَی اللهِ…آپ نے کہا: اللہ کی طرف کون لوگ میرے مدد گار ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مضمون کس پس منظر کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ان یہودیوں نے کیا کفر کیا تھا؟ اور آپ نے اپنے ساتھیوں سے کیوں مدد طلب کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان یہودیوں کا کفر دراصل یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے درپے تھے اور آپ کو مصلوب کرنے کے ناپاک عزائم رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے منصوبۂ قتل بھی تیار کر رکھا تھا۔ آپ کو جب اُن کے ناپاک عزائم کا علم ہوا اور اُن کا منصوبہ قتل جان کر آپ نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ آج تم میں سے کون ہے جو اللہ کے لیے میری مدد کرنے والا ہو۔ اس پس منظر کی وضاحت میں یہودیوں کی ناکامی کا ذکر سورۂ النساء میں یوں آیا ہے:

وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ۔

النساء، 4: 157

’’اور نہ انہوں نے ان کو قتل کیا اور نہ سولی دی۔‘‘

اس جگہ لفظ قتل سے وضاحت ہو گئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس نوعیت کی مدد طلب کی وہ قتل کے خلاف تھی۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہودیوں کا کفر دراصل منصوبۂ قتل تھا چنانچہ قرآن نے اُن کے اِس منصوبے کے خلاف اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَo

آل عمران، 3: 54

’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بیان فرمائیں:

  1. یہود کا مکر کرنا۔
  2. اللہ تعالیٰ کا اُن کے مکر کے خلاف تدبیر فرمانا۔
  3. اللہ تعالیٰ کا بہتر تدبیر فرمانے والا ہونا۔

اس آیہ کریمہ میں یہ سارا واقعہ کنایہ اور ایما کے انداز میں بیان ہوا، یہ نہیں فرمایا کہ یہود نے کیا مکر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس مکر کو ناکام بنانے کی تدبیر فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کس طرح بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔ اس تمام واقعہ کی تفصیل آگے سورہ النساء میں بیان کر دی گئی۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللهِ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ط وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَکٍّ مِّنْهُ مَالَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِيْنًاo بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ وَکَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَکِيْمًاo وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًاo

النساء، 4: 157۔ 159

’’اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعویٰ) کی وجہ سے(بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالا (ہے) حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا۔ مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ کا) ہم شکل بنا دیا اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں (حقیقت حال کا) کچھ بھی علم نہیں۔ مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیاo بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہےoاور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گےo‘‘

مذکورہ آیات سے پہلے آیت نمبر 155 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَيْھَا بِکُفْرِهِمْ۔

النساء، 4: 155

’’اللہ نے ان کے دل پر ان کے کفر کے سبب سے مہر لگا دی۔‘‘

یعنی انہیں ہدایت سے محروم کردیا گیا اور ان کے باطل دعویٰ کا کلیتاً ردّ اس طرح فرمایا:

1۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ وہ اس بارے میں مغالطے میں مبتلا ہو گئے۔ اس مغالطے میں پڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک یہودی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سخت دشمن تھا اور آپ کے قتل کے منصوبے بنانے میں پیش پیش تھا، اس کی صورت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہو گئی اور اُسے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شبہ میں سولی دے دیا جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ملائکہ اُٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ یہی اللہ کی بہتر خفیہ تدبیر تھی کہ ان کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ ظالم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کا پیاسا تھا خود مارا جائے اور جو یہودی اس واقعہ کے بعد زندہ رہے وہ اصل حقیقت سے بے خبر قیامت تک شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیئے گئے۔

2۔ پھر دوبارہ مزید تاکید اور زور دے کر فرمایا کہ یہود نے ہرگز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔

3۔ اس کے بعد اگلی آیت نمبر 158 میں فرمایا:

بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إلَيْهِ۔

النساء، 4: 158

’’بلکہ اللہ نے اُن کو اپنی طرف زندہ اُٹھا لیا۔‘‘

رَافِعُکَ کی تفسیر

1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت {یٰعِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ}(1) کی تفسیر میں فرمایا:

(1) آل عمران، 3: 55

رافعک ثمّ متوفیک في آخر الزّمان۔

سیوطی، الدرالمنثور، 2: 226

’’( اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ!) میں تجھے اُٹھانے والا ہوں پھر آخری زمانے میں تجھے وفات دوں گا۔‘‘

2۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ {وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِيْنًاo بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ}(1) کی تفسیر میں فرمایا:

(1) النساء، 4: 157، 158

ورفع عیسٰی من روزنۃ البیت إلی السّماء۔

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 575

’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے گھر کے روشن دان سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔‘‘

3۔ نیز آیت کریمہ {وَاِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ}(1) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

(1) الزخرف، 43: 61

ہو خروج عیسی بن مریم قبل یوم القیامۃ۔

سیوطی، الدر المنثور، 7: 385

’’قیامت کی نشانی سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ قیامت سے پہلے نزول ہے۔‘‘

4۔ حضرت مجاہد التابعی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {وَلٰـکِنْ شُبِہّهَ لَهُمْ}(1) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

(1) النساء، 4: 157

صلبوا رجلا غیر عیسٰی شبہ بعیسٰی یحسبونہ إیّاہ ورفع اللہ إلیہ عیسٰی حیًا۔

سیوطی، الدر المنثور، 2: 728

’’یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جگہ ایک اور شخص کو پکڑ کر سولی چڑھا دیا جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ تھا جسے وہ عیسیٰ سمجھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف زندہ اُٹھا لیا۔‘‘

5۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ آیت {یٰعِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ}(1) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:

(1) آل عمران، 3: 55

ہذا من المقدم والمؤخر تقدیرہ إنّي رافعک إليّ ومتوفیک یعنی بعد ذلک۔

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 367

’’اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے اور مطلب یہ ہے کہ (اے عیسی!) ابھی میں تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اُٹھانے والا ہوں پھر آخری زمانہ میں تمہیں موت دوں گا۔‘‘

6۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آیت مذکورہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

قال جماعۃ من أہل المعاني منہم الضحاک والفراء في قولہ تعالٰی: {یٰعِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ} علی التقدیم والتأخیر، لأنّ الواو لا توجب الرّتبۃ، والمعنی إنّي رافعک إليّ ومطہرک من الّذین کفروا، ومتوفیک بعد أن تنزل من السمائ۔

قرطبی، الجامع الأحکام القرآن، 4: 99

’’اہل معانی کی ایک جماعت، جس میں امام ضحاک اور امام فراء بھی شامل ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: {یٰعِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ} کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں تقدیم و تاخیر کارفرما ہے کیونکہ واو ترتیب کو ثابت نہیں کرتی، مطلب یہ کہ (اے عیسیٰ!) ابھی میں تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں پھر آخری زمانہ میں جب تم آسمان سے نازل ہو گے تو اس کے بعد تمہیں موت دوں گا۔‘‘

7۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں کئی مقامات پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ النساء کی آیت {وَمَا قَتَلُوْهُ یَقِيْنًاo بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ}(1) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

(1) النساء، 4: 157، 158

رفع عیسٰی علیہ السلام إلی السّماء ثابت بہذہ الآیۃ ونظیر ھذہ الآیۃ قولہ في آل عمران: {یٰعِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ}۔

رازی، التفسیر الکبیر، 11: 81

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان کی طرف زندہ اُٹھایا جانا اس آیت سے ثابت ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا سورئہ آل عمران میں یہ فرمان ہے: {اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ}۔‘‘

آیتِ مُتَوَفِّيْکَ کا صحیح مفہوم

مذکورہ بالا تفاسیر کی روشنی میں آیت کریمہ {اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ} کا صحیح مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہو ئے فرمایا: اے میرے پیارے عیسیٰ! یہودی لاکھ تجھے قتل کرنے اور صلیب پر چڑھانے کے منصوبے بنائیں، وہ تجھے مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ میں آپ کا عرصہ حیات پورا کرنے والا ہوں اور جو عرصہ حیات آپ کا زمین پر رہنے کا معین تھا، میں اس کو اس طرح پورا کروں گا کہ آپ کو زندہ آسمان پر اُٹھا کر پھر دوبارہ قربِ قیامت زمین پر اُتار دوں گا اور آپ کی بقیہ زندگی پوری کرنے کے بعد آپ کو طبعی موت دوں گا۔ اس آیت کریمہ کی رو سے نزول سے لے کر تادم وصال آپ کا عرصۂ حیات ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا مصداق ہو گا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی تھا نہ کہ روحانی

اللہ رب العزت نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 158 میں ’’بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ‘‘ فرما کر اُن جھوٹے اور مکار لوگوں کا ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ رفعِ عیسیٰ علیہ السلام سے مراد رفعِ جسمانی نہیں بلکہ درجات کی بلندی کے اعتبار سے رفعِ روحانی ہے کیونکہ آیت نمبر 157 میں ’’اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ‘‘ کا ارشاد امرِ جسمانی سے متعلق ہے جس کی وضاحت میں فرمایا: ’’وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ۔‘‘

چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل اور مصلوب کرنے کا تعلق جسم کے ساتھ ہے نہ کہ روح کے ساتھ تو جب قتل اور صلیب سے بچانے کے لیے رفع الی السماء ہو گا تو یہ رفع جسمانی ہو گا نہ کہ روحانی۔ بالفاظ دیگر اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور سرِ دار لٹکانے کا منصوبہ بنایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رفع درجات عطا کرتے ہوئے ان کی روح کو اوپر اُٹھا لیا تو یہ نص قرآنی کے خلاف ہے کیونکہ مقصود یہ تھا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں کے قاتلانہ منصوبے سے باحفاظت بچایا جائے اگر مقصود ہی پورا نہ ہوا تو اس رفع کا کیا فائدہ؟ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَکَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَکِيْمًاo

النساء، 4: 158

’’اللہ غالب حکمت والا ہےo‘‘

جبکہ سورۂ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

وَاللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَo

آل عمران، 3: 54

’’اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہےo‘‘

اللہ تعالیٰ کا ان دو صفات یعنی حکمت والا اور بہتر تدبیر کرنے والا ہونا اس امر کا متقاضی تھا کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے منصوبے کے بدلے ایسا منصوبہ روبہ عمل لائے جو اُن کے گمان میں بھی نہ ہو اور جس کی گرد تک بھی اُن کی عقل اور سوچ کی رسائی نہ ہو چنانچہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک مشتبہ شخص مصلوب کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحں کو زندہ سلامت آسمان پر اُٹھا لیا۔ بصورت دیگر اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا اور قادیانیوں کی بات مانتے ہوئے بفرض محال ہم کچھ دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیں کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا تو مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح تو اللہ تعالیٰ کے ’’خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ‘‘ (بہتر تدبیر کرنے والا) اور ’’عَزِيْزًا حَکِيْمًا‘‘ (غالب حکمت والا) ہونے کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوتا بلکہ معاذ اللہ یہ تاثر ملتا ہے گویا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسول کے خلاف بنائے گئے منصوبے کے پروان چڑھنے کا تماشہ دیکھتا رہا اور پسِ قتل اُن کی روح کو اپنے قبضے میں لے کر رفع درجات عطا کر دیا۔ ایسا سوچنا گمراہی اور نص قرآنی کے خلاف ہے اور ایسی سوچ رکھنے والا گمراہ اور مرتد ہے۔ نعوذ باﷲ من ذلک۔

رفعِ جسمانی قانونِ قدرت کے خلاف نہیں

اپنے مقبول و برگزیدہ بندے کو جسمانی طور پر اُوپر اٹھا لینا اللہ تعالیٰ کے قانون، قدرت اور منشاء کے خلاف امر نہیں جیسا کہ سیدنا ادریس علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَاذْکُرْفِی الْکِتَابِ اِدْرِيْسَ اِنَّهٗ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِیًّاo وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِیًّاo

مریم، 19: 56، 57

’’اور (اس) کتاب(قرآن) میں ادریس کا ذکر فرمائیے بے شک وہ (بھی) نہایت سچے نبی تھےo اور ہم نے اُسے بلند مقام پر اُٹھا لیاo‘‘

اس آیت کے بارے میں مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جنت کی سیر کرنے کی آرزو کی تھی جس کو پورا کرتے ہوئے آپ کو ملائکہ کے ذریعے اُوپر اٹھا لیا گیا اور جنت کی سیر کرائی گئی۔ جنت کی سیر کرنے کے بعد ملائکہ نے عرض کیا کہ حضرت اب سیر ہو چکی ہے واپس تشریف لے چلیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ مولا تیرا وعدہ ہے کہ جو جنت میں ایک دفعہ آ جاتا ہے وہ واپس نہیں جاتا۔ مجھے اب ہمیشہ یہیں رکھ کہ تیرے قرب کی بارگاہ سے واپس نہیں جانا چاہتا۔ اللہ گنے فرشتوں سے فرمایا کہ ہمارے ادریس کو یہیں چھوڑ دو ہم اس کو واپس نہیں بھیجتے چنانچہ آج تک آپ چوتھے آسمان پر زندہ و سلامت تشریف فرما ہیں۔ شب معراج کو آپ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ملاقات بھی ہوئی۔ لهٰذا ثابت ہوا کہ جسمانی طور پر کسی کو اُٹھا لینا قانونِ قدرت کے خلاف نہیں بلکہ ممکنات میں سے ہے جس کی وضاحت خود قرآن مجید نے کر دی ہے۔

بحث کا ماحصل

قرآن مجید اور احادیثِ نبوی ﷺ کی جملہ تصریحات اس امر پر شاہد و عادل ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اُٹھا لیے گئے۔ احادیثِ رسول ﷺ کے مطابق قربِ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجالِ اکبر کے خاتمہ کے لیے سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے زمانے میں دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی گوشہ میں نماز فجر کے وقت نازل ہوں گے۔ آپ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں نماز پڑھیں گے اور ان تمام اُمور کو سر انجام دیں گے جن کی تفصیل احادیث میں بیان ہوئی ہے پھر طبعی عمر کو پہنچ کر آپ کا وصال ہو جائے گا اور آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے پہلو مبارک میں دفن ہوں گے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت ثابت کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا شوشہ کھڑا کیا اور اس طرح اُمتِ مسلمہ کے متفق علیہ عقیدہ کی عمارت میں نقب لگا کر اُس کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی مذموم کوشش کی، لیکن اس کی تلبیس، کذب آفرینی اور افترا پردازی کا سراب قرآن و سنت کی حقانیت و صداقت کے آفتاب کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا اور بانی قادیانیت کے فریب کا پردہ چاک ہو گیا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved