عمدۃ التصریح في قیام رمضان وصلاۃ التراویحِ

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تراویح میں ایک امام کے پیچھے جمع فرمایا

جَمَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه النَّاسَ خَلْفَ إِمَامٍ وَاحِدٍ فِي التَّرَاوِیْحِ

20/1. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِيِّ أَنَّهٗ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه لَیْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ، یُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهٖ، وَیُصَلِّي الرَّجُلُ فَیُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه: إِنِّي أَرٰی لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلٰی قَارِیئٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهٗ لَیْلَةً أُخْرٰی وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَـلَاۃِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ رضی الله عنه: نِعْمَ الْبِدْعَۃُ هٰذِهٖ، وَالَّتِي یَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي یَقُوْمُوْنَ، یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ، وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهٗ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2: 707، الرقم: 1906، ومالک في الموطأ، کتاب الصّلاة في رمضان، باب الترغیب في الصلاة في رمضان، 1: 116، الرقم: 650، وابن خزیمة في الصحیح، 2: 155، الرقم: 1100، وعبد الرزاق في المصنف، 6: 258، الرقم: 7723، والبیهقي في السنن الکبری، 2: 693، الرقم: 6378، وأیضًا في شعب الإیمان، 3: 177، الرقم: 3269.

حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق (شکل میں مصروفِ عبادت) تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں ایک گروہ کسی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں اگر ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا عزم کرلیا اور پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں سب کو جمع کر دیا۔ پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ نکلا تو لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! مگر جو لوگ اس وقت (نمازِ تراویح ادا کرنے کے بجائے) سو رہے ہیں (تاکہ وہ پچھلی رات اٹھ کر نمازِ تراویح ادا کریں) وہ اس وقت نماز ادا کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے تھے اور اکثر لوگ رات کے پہلے پہر نمازِ (تراویح) ادا کیا کرتے تھے۔

اِسے امام بخاری، مالک، ابن خزیمہ، عبدالرزاق، اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

21/2. عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلٰی قِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، الرِّجَالَ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، وَالنِّسَاءَ عَلٰی سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.

أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 2: 493، الرقم: 4380، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 4: 253، الرقم: 1905، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 1: 341، والسیوطي في تنویر الحوالک، 1: 105.

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نمازِ تراویح کے لیے اکٹھا کر دیا؛ مردوں کو حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں جب کہ عورتوں کو حضرت سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved