عمدۃ التصریح في قیام رمضان وصلاۃ التراویحِ

وہ قراء صحابہ و تابعین جو لوگوں کی بیس رکعات تراویح میں امامت فرماتے تھے

اَلقُرَّاءُ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ کَانُوْا یَؤُمُّوْنَ النَّاسَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

(1) کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي بِالنَّاسِ بِالْمَدِیْنَۃِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھاتے تھے}

31: 1. عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ قَالَ: کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَ یُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ. إِسْنَادُهٗ مُرْسَلٌ قَوِيٌّ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7684، وذکرہ المبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 3: 445

عبد العزیز بن رُفَیع سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت (تراویح) اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند مرسل قوی ہے۔

(2) کَانَ سُوَیْدُ بْنُ غَفْلَۃَ رضی اللہ عنہ یُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{حضرت سوید بن غفلہ لوگوں کو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھاتے تھے}

32: 2. عَنْ أَبِي الْخَصِیْبِ، قَالَ: کَانَ یَؤُمُّنَا سُوَیْدُ بْنُ غَفْلَۃَ فِي رَمَضَانَ فَیُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَإسْنَادُهٗ حَسَنٌ، وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکُنٰی.

أخرجہ البیہقي في السنن الکبری، 2: 446، الرقم: 4395، والبخاري في الکنی، 1: 28، الرقم: 234

ابو خصیب نے بیان کیا ہے کہ حضرت سوید بن غفلہ ہمیں رمضان المبارک میں نمازِ تراویح پانچ ترویحات کے ساتھ یعنی بیس رکعات پڑھاتے تھے۔

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے اور امام بخاری نے اسے الکنیٰ میں ذکر کیا ہے۔

(3) کَانَ ابْنُ أَبِي مُلَیْکَۃَ یُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{حضرت ابن ابی ملیکہ لوگوں کو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھاتے تھے}

33: 3. عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ ابْنُ أَبِي مُلَیْکَۃَ یُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ، وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7683

حضرت نافع بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابنِ ابی ملیکہ ہمیں رمضان المبارک میں بیس رکعت نمازِ(تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

(4) کَانَ الْحَارِثُ یَؤُمُّ النَّاسَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{حضرت حارث لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھایا کرتے تھے}

34: 4. عَنِ الْحَارِثِ أَنَّهٗ کَانَ یَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّیْلِ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً، وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ، وَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7685

حضرت حارث سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے اور (وتر کی آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعا قنوت پڑھتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

(5) کَانَ عَلِيُّ بْنُ رَبِیْعَۃَ یُصَلِّي بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ

{حضرت علی بن ربیعہ لوگوں کو پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعات) پڑھاتے تھے}

35: 5. عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِیْعَۃَ کَانَ یُصَلِّي بِھِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ وَ یُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ، وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7690

حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعت) نمازِ (تراویح) اور تین وتر پڑھاتے تھے (یاد رہے کہ ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد ہوتا ہے)۔

اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

(6) کَانَ شُتَیْرُ بْنُ شَکَلٍ صَاحِبُ عَلِيٍّ یَؤُمُّ النَّاسَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی شُتیَر بن شَکل بیس رکعات تراویح کی امامت فرماتے تھے}

36: 6. عَنْ شُتَیْرِ بْنِ شَکَلٍ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ: أَنَّهٗ کَانَ یَؤُمُّھُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالْبَیْھَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَقَالَ: وَفِي ذٰلِکَ قُوَّۃٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7680، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 496، الرقم: 4395

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حضرت شُتیر بن شکل سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعاتِ (تراویح) اور تین وتر پڑھاتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور کہا ہے: اس میں قوت ہے (یعنی روایت قوی ہے)۔

(7) کَانَ أَبُوْ الْبُخْتَرِيِّ یُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ

{حضرت ابو البختری پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعات) پڑھتے تھے}

37: 7. عَنْ أَبِي الْبُخْتَرِيِّ أَنَّهٗ کَانَ یُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ، إِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7686

حضرت ابو البُخْتَری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعات تراویح) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد صحیح ہے۔

(8) کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ یَأْمُرُ الْقُرَّائَ بِإِقَامَۃِ ذٰلِکَ

{حضرت عمر بن عبدالعزیز قُراء حضرات کو بیس رکعات پڑھانے کا حکم فرماتے تھے}

38: 8. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَیْرُ وَاحِدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ أَمَرَ الْقُرَّائَ یَقُوْمُوْنَ بِذٰلِکَ وَیَقْرَؤُوْنَ فِي کُلِّ رَکْعَۃٍ عَشْرَ آیَاتٍ.

رَوَاهُ مَالِکٌ.

أخرجہ مالک في المدونۃ الکبریٰ، 1: 222-223

عبد الله بن عمر بن حفص روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک سے زائد لوگوں نے بیان کیا ہے کہ امیر المومنین عمر بن عبد العزیز نے قرّاء صاحبان کو بیس رکعاتِ تراویح پڑھانے اور ہر رکعت میں دس آیات کی تلاوت کرنے کا حکم فرما رکھا تھا۔

اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔

(9) عَمَلُ النَّاسِ فِي التَّرَاوِیْحِ کَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً

{صحابہ و تابعین کا عام معمول بھی 20 رکعاتِ تراویح پڑھنے کا تھا}

39: 9. عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ ثَـلَاثًا وَعِشْرِیْن رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ، وَإِسْنَادُهٗ حَسَنٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 163، الرقم: 7688

حضرت عطاء (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو (یعنی صحابہ کرام اور اکابر تابعین کو) دیکھا کہ وہ بشمول وتر 23 رکعات نمازِ (تراویح) پڑھتے تھے۔

اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اوراس کی سند حسن ہے۔

40: 10. عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ، أَنَّهٗ سَمِعَ الْأَعْرَجَ یَقُوْلُ: وَکَانَ الْقَارِیُٔ یَقْرَأُ سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ، فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَي عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، رَأَی النَّاسُ أَنَّهٗ قَدْ خَفَّفَ.

رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَیْهَقِيُّ وَالْفَرْیَابِيُّ وَقَالَ: إِسْنَادُهٗ قَوِيٌّ.

قَالَ مَالِکٌ: بَعَثَ إِلَيَّ الْأَمِیْرُ وَأَرَادَ أَنْ یُنْقِصَ مِنْ قِیَامِ رَمَضَانَ الَّذِي یَقُوْمُهُ النَّاسُ بِالْمَدِیْنَۃِ۔ قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: وَهِيَ تِسْعٌ وَثَـلَاثُوْنَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ، سِتٌّ وَثَـلَاثُوْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرُ ثَـلَاثٌ، قَالَ مَالِکٌ: فَنَهَیْتُهٗ أَنْ یُنْقِصَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئاً، قُلْتُ لَهٗ: ھٰذَا مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ عَلَیْهِ وَهُوَ الْأَمْرُ الْقَدِیْمُ الَّذِي لَمْ یَزَلِ النَّاسُ عَلَیْهِ. [مالک في المدونۃ الکبریٰ، 1: 222]

وَقَالَ الِإمَامُ وَلِيُّ اللهِ الدِّھْلِوِيُّ: هُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِیَّۃِ وَالْحَنَفِیَّۃِ، وَعِشْرُوْنَ رَکْعَۃً تَرَاوِیْحُ وَثَلاثٌ وِتْرٌ عِنْدَ الْفَرِیْقَیْنِ. هٰکَذَا قَالَ الْمَحَلِّيُّ عَنِ الْبَیْهَقِيِّ. [ولي الله الدھلوي، المسوّی من أحادیث الموطأ، 1: 175]

أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ما جاء في قیام رمضان، 1: 115، الرقم: 753، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 497، الرقم: 4401، وفي شعب الإیمان، 3: 177، الرقم: 3271، والفریابي في کتاب الصیام، 1: 133، الرقم: 181، وابن عبد البر في التمھید، 17: 405، والسیوطي في تنویر الحوالک شرح موطأ مالک، 1: 105، والزرقاني في شرحہ علی الموطأ، 1: 342، وولي الله الدھلوي في المسوی من أحادیث الموطأ، 1: 175

داود بن حُصَین نے اَعرْج کو فرماتے ہوئے سنا کہ (نمازِ تراویح میں) قاری سورہ بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں ختم کرتا تھا، جب باقی بارہ رکعتیں پڑھاتا تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی کر دیتا (یعنی بقیہ 12 رکعات میں قرأت مختصر کی جاتی)۔

اِسے امام مالک، بیہقی اور فریابی نے روایت کیا ہے اور امام فریابی فرماتے ہیں: اس کی سند قوی ہے۔

امام مالک نے فرمایا: امیرِ (مدینہ) نے میری طرف پیغام بھیجا اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ اہلِ مدینہ کے لیے قیام رمضان (تراویح) کا عدد کم کر دے (آپ کی اس پر کیا رائے ہے)؟ ابن قاسم (اس کی

وضاحت میں) کہتے ہیں: مدینہ میں تراویح کی تعداد وتر سمیت انتالیس رکعات ہیں یعنی چھتیس رکعاتِ تراویح اور تین وتر (36 رکعات میں دراصل تراویح 20 عدد ہیں جبکہ مزید 16 رکعات، نوافل ہیں جو اہل مدینہ ہر ترویحہ کے وقفہ میں اضافتاً پڑھتے تھے، یعنی ترویحہ میں تسبیحات کی جگہ یہ ان کے ساتھ 4 نوافل کا اضافہ کرلیتے تھے)۔ امام مالک نے فرمایا: میں نے اُسے اِس میں کمی کرنے سے منع کیا اور اسے کہا ہے: میں نے اہلِ مدینہ کو ہمیشہ اسی پر کاربند پایا ہے اور یہ قدیم معمول ہے جس پر لوگ (یعنی اہلِ مدینہ) شروع سے قائم چلے آ رہے ہیں۔

شاہ ولی اللہ دہلوی نے (اس حدیث کی شرح میں) بیان کیا ہے کہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر شوافع اور احناف دونوں کا مذہب ہے۔ اسی طرح المحلّی نے امام بیہقی سے بیان کیا ہے۔

41: 11. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمْ أُدْرِکِ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ یَقُوْمُوْنَ بِتِسْعٍ وَثَـلَاثِیْنَ رَکْعَۃً یُوْتِرُوْنَ مِنْهُ بِثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ مَالِکٌ.

أخرجہ مالک في المدونۃ الکبریٰ، 1: 222

حضرت عبد الله بن عمر (بن حفص)، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے اہلِ مدینہ کو ہمیشہ اسی معمول پر کاربند پایا ہے کہ وہ انتالیس رکعات کے ساتھ قیام کرتے ہیں جن میں تین رکعات وتر پڑھتے ہیں۔

اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔

42: 12. عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ: رَأَیْتُ النَّاسَ یَقُوْمُوْنَ بِالْمَدِیْنَۃِ بِتِسْعٍ وَثَـلَاثِیْنَ وَبِمَکَّۃَ بِثَـلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ.

ذَکَرَهُ الْعَسْقَـلَانِيُّ وَالشَّوْکَانِيُّ عَنْ مَالِکٍ.

قاَلَ الشَّافِعِيُّ: وَأَحَبُّ إِلَيَّ إِذَا کَانُوْا جَمَاعَۃً أَنْ یُصَلُّوْا عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُوْنَ ثَـلَاثًا، قَالَ: وَرَأَیْتُ النَّاسَ یَقُوْمَوْنَ بِالْمَدِیْنَۃِ تِسْعًا وَثَلَاثِیْنَ رَکْعَۃً، وَأَحَبُّ إِلَيَّ عِشْرُوْنَ، وَکَذٰلِکَ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ وَکَذٰلِکَ یَقُوْمُوْنَ بِمَکَّۃَ، قَالَ أَحْمَدُ: وَالْأَصْلُ فِي حَدِیْثِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ فِي صَلَاۃِ التَّرَاوِیْحِ۔[ذکرہ البیہقی في معرفۃ السنن والآثار، 2: 303، الرقم: 1363]

وَقَالَ ابْنُ رُشْدٍ القُرْطَبِيُّ: واخْتَلَف مِنْ عَدَدِ الرَّکَعَاتِ الَّتِي یَقُوْمُ بِهَا النَّاسُ فِي رَمَضَانَ، فَاخْتَارَ مَالِکٌ فِي أَحَدِ قَوْلَیْهِ وَأَبُوحَنِیْفَۃَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَدَاوٗدُ الْقِیَامَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً سِوَی الْوِتْرِ، وَذَکَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِکٍ أَنَّهٗ کَانَ یَسْتَحْسِنُ سِتًّا وَثَـلَاثِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرُ ثَـلَاثٌ.

وَسَبَبُ اخْتِلَافِهِمْ اخْتِلَافُ النَّقْلِ فِي ذٰلِکَ، وَذٰلِکَ أَنَّ مَالِکًا رَوٰی عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ، قَالَ: کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ بِثَـلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً.

وَخَرَّجَ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ قَیْسٍ قَالَ:

أَدْرَکْتُ النَّاسَ بِالْمَدِیْنَۃِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ یُصَلُّوْنَ سِتًّا وَثَـلَاثِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُوْنَ بِثَـلَاثٍ۔ وَذَکَرَ ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِکٍ أَنَّهُ الْأَمْرُ الْقَدِیْمُ یَعْنِي الْقِیَامَ بِسِتٍّ وَثَـلَاثِیْنَ رَکْعَۃً. [أخرجہ ابن رشد في بدایۃ المجتھد، 1: 152]

وَقَالَ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ فِي ’’الفَتَاوٰی‘‘: ثَبَتَ أَنَّ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ کَانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي رَمَضَانَ وَیُوتِرُ بِثَـلَاثٍ، فَرَأٰی کَثِیْرًا مِنَ الْعُلَمَائِ أَنَّ ذٰلِکَ ھُوَ السُّنَّۃُ ِلأَنَّهٗ قَامَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْهُ مُنْکِرٌ. [ابن تیمیۃ في مجموع فتاوی، 1: 191، وإسماعیل بن محمد الأنصاري في تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ، 1: 35]

وَفِي مَجْمُوْعَۃِ الْفَتَاوَی النَّجْدِیَّۃِ: أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَھَّابِ ذَکَرَ فِي جَوَابِہٖ عَنْ عَدَدِ التَّرَاوِیْحِ أَنَّ عُمَرَ رضی اللہ عنہ لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، کَانَتْ صَلَاتُھُمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً. [إسماعیل بن محمد الأنصاري في تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ، 1: 35]

ذکرہ العسقلاني في فتح الباري، 4: 253، والشوکاني في نیل الأوطار، 3: 64

حضرت زعفرانی، امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نے خود لوگوں کو مدینہ منورہ میں انتالیس (39) اور مکہ مکرمہ میں تئیس (23) رکعات (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھنے کے معمول پر عمل پیرا دیکھا ہے۔

اسے حافظ عسقلانی اور علامہ شوکانی نے امام مالک سے نقل کیا ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اگر وہ جماعت کے ساتھ ہوں تو بیس رکعاتِ(تراویح) اور تین وتر پڑھیں۔ اور فرماتے ہیں: میں نے مدینہ میں لوگوں کو انتالیس رکعات ادا کرتے دیکھا ہے، جبکہ مجھے بیس رکعات (یعنی 16 رکعت اضافی نوافل کے بغیر، صرف 20 رکعات اصل نمازِ تراویح) پسند ہیں۔ اور ایسا ہی(عمل) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مکہ مکرمہ میں قیام(رمضان) کی اتنی ہی (رکعات) ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تراویح سے متعلق حدیث اس عمل کی اصل ہے۔ے۔

امام ابنِ رشد القرطبی فرماتے ہیں: ائمہ نے رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کے عدد پر باہم اختلاف کیا ہے۔ پس امام مالک نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام داؤد ظاہری نے بیس رکعات تراویح کا قیام پسند کیا ہے اور تین وتر اس کے علاوہ ہیں۔ ابن القاسم نے امام مالک کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ چھتیس (36) رکعات تراویح اور تین وتروں کو اچھا سمجھتے تھے۔

ائمہ کے درمیان (رکعاتِ تراویح کا انتالیس (39) یا تئیس (23) ہونے میں) اختلاف کا سبب اس باب میں اختلافِ روایات ہے۔ وہ یہ کہ امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعات تراویح (بشمول تین وتر) کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔

امام ابنِ ابی شیبہ نے داؤد بن قیس کے طریق سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے مدینہ طیبہ میں عمر بن عبد العزیز اور اَبان بن عثمان کے زمانے میں لوگوں کو چھتیس رکعات اور پھر تین رکعات وتر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابنِ قاسم نے امام مالک کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یہ (اَہلِ مدینہ کا) قدیم معمول ہے یعنی تراویح کی چھتیس رکعات کے ساتھ قیام کرنا۔

علامہ ابنِ تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں کہا ہے کہ ثابت شدہ بات یہ ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ چنانچہ اکثر اہلِ علم نے اسے سنت مانا ہے، کیونکہ وہ مہاجرین اور انصار (تمام) صحابہ کرام کی موجودگی میں (بیس رکعات پڑھاتے تھے) اور کسی نے بھی انہیں کبھی نہیں روکا تھا۔

مجموعہ الفتاوی النجدیہ میں ہے کہ عبد الله بن محمد بن عبدالوہاب نے تعدادِ رکعات تراویح سے متعلق سوال کے جواب میں بیان کیا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح کے لیے جمع کیا تو ان کی نمازِ (تراویح) بیس رکعت ہوتی تھی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved