Hidaya al-Umma ‘ala Minhaj al-Qur’an wa al-Sunna

فصل 8 :انبیاء علیھم السلام کا اپنے مزارات میں جسموں کے ساتھ زندہ ہونے کا بیان

فَصْلٌ فِي کَوْنِ الْأَنْبِیَاءِ أَحْیَاءً فِي قُبُوْرِھِمْ بِأَجْسَادِھِمْ

{اَنبیاء علیھم السلام کا اپنے مزارات میں جسموں کے ساتھ زندہ ہونے کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآء عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا۔

(البقرۃ، 2 : 143)

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔‘‘

2۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَo

(البقرۃ، 2 : 154)

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا ) شعور نہیںo‘‘

3۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَo فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ لا وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo

(آل عمران، 3 : 169،170)

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہےo وہ (حیاتِ جاودانی کی) ان (نعمتوں) پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرما رکھی ہیں اور اپنے ان پچھلوں سے بھی جو (تاحال) ان سے نہیں مل سکے (انہیں ایمان اور طاعت کی راہ پر دیکھ کر) خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo‘‘

4۔ فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَھِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًاo

(النساء، 4 : 41)

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘

5۔ وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo

(النساء، 4 : 64)

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( ﷺ ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘

6۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْھِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo

(الأنفال، 8 : 33)

’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo‘‘

7۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ کُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَهِيْدًا عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ ط وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِيْنَo

(النحل، 16 : 89)

’’اور (یہ) وہ دن ہو گا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہےo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْیَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْھَا، فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ۔ قَالَ : فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ۔ مَا یَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُھُمْ بِهِ۔ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الأنبیاء، فَإِذَا مُوْسَی علیه السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ةَ۔ وَإِذَا عِيْسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیھما السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَھاً عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ۔ وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ علیه السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (یَعْنِي نَفْسَهُ)۔ فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ : یَا مُحَمَّدُ، ھَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ۔ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلاَمِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔

1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، 1 / 156، الرقم : 172، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 455، الرقم : 11480، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 116 الرقم : 350، وأبونعیم في المسند المستخرج، 1 / 239، الرقم : 433، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 6 / 487۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میںنے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور قریش مجھ سے واقعۂ سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہوا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (دیکھ دیکھ کر) ان کو بتا دیتا۔ اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اور وہ قبیلہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے اور تمہارے دوست (یعنی خود حضور ﷺ ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کروائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَتَيْتُ (وفي روایۃ ھَدَّابٍ : مَرَرْتُ) عَلَی مُوسَی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَھُوَ قَائِمٌ یُصَلِّي فِي قَبْرِهِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : من فضائل موسی علیه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل وتطوع النھار، باب : ذکر صلاۃ نبي الله موسی علیه السلام، 3 / 215، الرقم : 161۔ 1632، وفي السنن الکبری، 1 / 419، الرقم : 1328، وابن حبان في الصحیح، 1 / 242، الرقم : 50، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم : 12526۔13618، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 335، الرقم : 36575، وأبو یعلی في المسند، 6 / 71، الرقم : 3325، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 13، الرقم : 7806، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 362، الرقم : 1205، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 170، الرقم : 6529، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 205، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 444۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں معراج کی شب سرخ ٹیلے کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ہدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا) درآنحالیکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں مصروفِ صلاۃ تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ۔ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ۔ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَيْفَ تُعْرَضُ صلَاَتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ یَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ فَقَالَ ﷺ : إِنَّ اللهَ عزوجل حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

3 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، 1 / 275، الرقم : 1047، وفي کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : إکثار الصلاۃ علی النبي ﷺ یوم الجمعۃ، 3 / 91، الرقم : 1374، وابن ماجہ في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ، باب : في فضل الجمعۃ،1 / 345، الرقم : 1085۔

’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ کا جسد مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو(کھانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوْحِي، حَتَّی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔

4 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زیارۃ القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند 2 / 527، الرقم : 10827، والبیھقي في السنن الکبری، 15 / 245، الرقم : 10050، وفي شعب الإیمان، 2 / 217، الرقم : 1581،4161، وابن راھویه في المسند، 1 / 453 الرقم : 526۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹا دی ہوئی ہے (میری توجہ اس کی طرف مبذول فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ یُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّی یَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ یُرْزَقُ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔ وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ۔ وَقَالَ الْمَنَاوِيُّ : قَالَ الدَّمِيْرِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ۔ وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : حَسَنٌ۔

5 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ذکر وفاته ودفنه ﷺ ، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 328، الرقم : 2582، والمزي في تھذیب الکمال، 10 / 23، الرقم : 2090، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فیض القدیر، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، والشوکاني في نیل الأوطار، 3 / 304۔

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور (یا رسول اللہ!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا کہ اسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں اور امام منذری اور عجلونی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

6۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَیَاتِي۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 406، الرقم : 13496، والدارقطني عن حاطب رضی الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193 والبیھقي في شعب الإیمان، 3 / 489، الرقم : 4154، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ قَالَ : أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا فَوَجَدَ رَجُـلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُوْ أَیُّوْبَ رضی الله عنه فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ (وفي روایۃ : وَلَا الْخَدَرَ) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : لَا تَبْکُوْا عَلَی الدِّيْنِ إِذَا وَلِیَهُ أَهْلُهُ وَلَکِنِ ابْکُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِیَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

1 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، رقم : 8571، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 158، الرقم : 3999، وفي المعجم الأوسط، 1 / 94، الرقم : 284، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام1 / 113، والهیثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967۔

’’حضرت داؤد بن ابو صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ جھکائے ہوئے ہے، تو اس نے اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں) میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں کسی تاریک جگہ پر نہیں آیا) میں نے رسول خدا ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : دین پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نا اہل ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

2۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ یُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ ﷺ ثَـلَاثًا وَلَمْ یُقَمْ وَلَمْ یَبْرَحْ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا یَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلاَةِ إِلاَّ بِھَمْھَمَةٍ یَسْمَعُھَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَذَکَرَ مَعْنَاهُ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔

2 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 56، الرقم : 93، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسیوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم : 4029۔

’’حضرت سعید بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ کا واقعہ پیش آیا تو مسجد نبوی ﷺ میںتین دن تک اذان اور اِقامت نہ کہی گئی، اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (نے مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے مسجد نہیں چھوڑی تھی۔ وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور سے سنتے تھے پھر اس آواز کا انہوں نے مطلب بھی بتایا۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

3۔ قال الغزالي : کل من یتبرک بمشاھدته في حیاته، یتبرک بزیارته بعد وفاته۔

3 : الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2 / 247۔

’’امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہر وہ شخص کہ جس کی زندگی میں اُس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاتی ہے، وفات کے بعد بھی اُس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved