Hidaya al-Umma ‘ala Minhaj al-Qur’an wa al-Sunna

فصل 5 :اللہ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم ﷺ کو قیامت کے دن مقام محمود پر فائز فرمانے کا بیان

فَصْلٌ فِي بَعْثِ اللهِ تَعَالَی النَّبِيَّ ﷺ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

{اللہ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم ﷺ کو قیامت کے دن مقامِ محمود پر فائز فرمانے کا بیان}

اَلْآیَةُ الْقُرْآنِيَّةُ

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّکَق عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo

(بنی اسرائیل، 17 : 79)

’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی) ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِيَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ۔ وَقَالَ : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَتَّی یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ ۔ وَزَادَ عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ : حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ : فَیَشْفَعُ لِیُقْضَی بَيْنَ الْخَلْقِ، فَیَمْشِي حَتَّی یَأْخُذَ بِحَلَقَةِ الْبَابِ فَیَوْمَئِذٍ یَبْعَثُهُ اللهُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا، یَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ کُلُّهُمْ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه وَالْبَيْهَقِيُّ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : من سأل الناس تکثراً، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده في الإیمان، 2 / 854، الرقم : 884، والبیھقي في شعب الإیمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والدیلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 377، الرقم : 3677، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15 / 146، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 : 56۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص (دنیا میں بھکاری بن کر) لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ ہوگا۔ اور فرمایا : قیامت کے دن سورج (مخلوق کے) اتنا قریب ہوگا کہ (ان کا) پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا۔ پس وہ اس حال میں حضرت آدم علیہ السلام سے مدد طلب کریں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر حضرت محمد ﷺ سے مدد طلب کرنے جائیں گے۔ عبد اللہ بن جعفر نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابنِ ابی جعفر نے بیان کیا : آپ ﷺ شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔ آپ جائیں گے حتی کہ جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ لیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور سارے اہلِ محشر حضور ﷺ کی تعریف کریں گے۔‘‘ اسے امام بخاری، ابنِ مندہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنْ یَزِيْدَ الْفَقِيْرِ قَالَ : کُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ نُرِيْدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَی النَّاسِ۔ قَالَ : فَمَرَرْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما یُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلَی سَارِیَةٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ قَالَ : فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَکَرَ الْجَهَنَّمِيِّيْنَ،قَالَ : فَقُلْتُ لَهُ : یَا صَاحِبَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ! مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُوْنَ؟ وَاللهُ یَقُوْلُ : {إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ} [آل عمران، 3 : 192] وَ{کُلَّمَآ أَرَادُوْا أَنْ یَخْرُجُوْا مِنْهَآ أُعِيْدُوْا فِيْهَا} [السجدۃ، 32 : 20] فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُوْلُوْنَ؟ قَالَ : أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ : نَعَمْ! قَالَ : فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ ﷺ (یَعْنِي الَّذِي یَبْعَثُهُ اللهُ فِيْهِ)؟ قُلْتُ : نَعَمْ! قَالَ : فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ ﷺ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي یُخْرِجُ اللهُ بِهِ مَنْ یُخْرِجُ، قَالَ : ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، قَالَ : وَأَخَافُ أَنْ لَّا أَکُوْنَ أَحْفَظُ ذَاکَ، قَالَ : غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ أَنَّ قَوْمًا یَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ یَکُوْنُوْا فِيْهَا۔ قَالَ : یَعْنِي فَیَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمْ عِيْدَانُ السَّمَاسِمِ۔ قَالَ : فَیَدْخُلُوْنَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ فَیَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ، فَیَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيْسُ، فَرَجَعْنَا، قُلْنَا : وَيْحَکُمْ أَتَرَوْنَ الشَّيْخَ یَکْذِبُ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ؟ فَرَجَعْنَا فَـلَا وَاللهِ! مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَوْ کَمَا قَالَ أَبُوْ نُعَيْمٍ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو عَوَانَةَ وَابْنُ مَنْدَه وَالْبَيْهَقِيُّ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیها، 1 / 179، الرقم : 191، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 154، الرقم : 448، وابن منده في الإیمان، 2 / 829، الرقم : 858، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 289، الرقم : 315، وأیضاً في الاعتقاد، 1 / 195۔

’’یزید الفقیر کہتے ہیں : مجھے خوارج کی رائے نے گھیر لیا تھا (کہ گناهِ کبیرہ کے مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہیں گے)۔ ہم لوگوں کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ حج کرنے کے لئے نکلے (اور سوچا کہ بعد میں) ہم لوگوں کے پاس (اپنے اس عقیدہ کوبیان کرنے کے لئے) جائیں گے۔ فرماتے ہیں : ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو دیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ایک ستون کے پاس بیٹھے لوگوں کو احادیث بیان فرما رہے ہیں۔ فرماتے ہیں : اچانک انہوں نے جہنمیوں کا ذکر فرمایا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے صحابیٔ رسول ﷺ ! آپ یہ کیا بیان کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو (جہنمیوں کے بارے) فرماتا ہے : {بے شک تو جسے دوزخ میں ڈال دے تو تُو نے اسے واقعةً رسوا کردیا} اور ایک مقام پر ہے : {(دوزخی) جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے} آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا : ہاں! فرمایا : کیا تم نے حضور نبی اکرم ﷺ کا وہ مقام پڑھا ہے جس پر اللہ تعالیٰ انہیں فائز فرمائے گا؟ میں نے کہا : ہاں! فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ کا مقام ایسا مقامِ محمود ہے جس پر فائز ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا جہنم سے نکالے گا۔ فرماتے ہیں : پھر انہوں نے پل صراط اور لوگوں کے اس پر گزرنے کو بیان فرمایا۔ کہتے ہیں : مجھے ڈر ہے کہ شاید میں اسے یاد نہ رکھ سکوں۔ تاہم انہوں نے یہ بیان کیا کہ لوگ جہنم میں داخل ہونے کے بعد اس سے نکلیں گے۔ ابو نعیم کہتے ہیں : وہ ایسے نکلیں گے جیسا کہ آبنوس کی جلی ہوئی لکڑیاں، پھر جنت کی نہر میں غسل کرکے کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ پس ہم وہاں سے لوٹے اور ہم نے آپس میں کہا : تم پر افسوس ہو کیا یہ شیخ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتے ہیں؟ (ہرگز نہیں) پس ہم میں سے ایک شخص کے سوا سبھی خوارج کے عقیدہ سے تائب ہو گئے جیسا کہ ابو نعیم نے بیان کیا ہے۔‘‘ اسے امام مسلم، ابو عوانہ، ابنِ مندہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فِي قوْلِهِ {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] سُئِلَ عَنْھَا قَالَ : ھِيَ الشَّفَاعَةُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : من سورۃ بني إسرائیل، 5 / 303، الرقم : 3137، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 444، الرقم : 9735، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 319، الرقم : 31745، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 364، الرقم : 784، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 681، الرقم : 299، والصیداوي في معجم الشیوخ، 2 / 664، الرقم : 293، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15 / 145، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 59، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 309۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آپ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo} کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ مقامِ شفاعت ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی، احمد، ابنِ ابی شیبہ اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِیَدِي لِوَاء الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ : فَیَفْزَعُ النَّاسُ ثَـلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَیَأْتُونَ آدَمَ، فَیَقُوْلُوْنَ : أَنْتَ أَبُوْنَا آدَمُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ، فَیَقُوْلُ : إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَی الْأَرْضِ، وَلَکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا، فَیَقُوْلُ : إِنِّي دَعَوْتُ عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُهْلِکُوا، وَلَکِنِ اذْهَبُوْا إِلَی إِبْرَاهِيْمَ فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاهِيْمَ، فَیَقُوْلُ : إِنِّي کَذَبْتُ ثَـلَاثَ کَذِبَاتٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مِنْهَا کَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِيْنِ اللهِ، وَلَکِنِ ائْتُوْا مُوْسَی فَیَأْتُوْنَ مُوسَی، فَیَقُولُ : إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا وَلَکِنِ ائْتُوْا عِيْسَی۔ فَیَأْتُونَ عِيْسَی، فَیَقُوْلُ : إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلَکِنِ ائْتُوْا مُحَمَّدًا، قَالَ : فَیَأْتُونَنِي، فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ : قَالَ أَنَسٌ : فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، فَیُقَالُ : مَنْ هَذَا؟ فَیُقَالُ مُحَمَّدٌ فَیَفْتَحُوْنَ لِي وَیُرَحِّبُوْنَ بِي، فَیَقُولُونَ : مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا، فَیُلْهِمُنِي اللهُ مِنَ الثَّنَائِ وَالْحَمْدِ فَیُقَالُ لِي : اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَقُلْ یُسْمَعْ لِقَوْلِکَ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اللهُ : {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [الإسراء، 17 : 79] قَالَ سُفْیَانُ : لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا هَذِهِ الْکَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِیثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما الْحَدِیثَ بِطُولِهِ۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ بني إسرائیل، 5 / 308، الرقم : 3148، والمنذري في الترغیب والترهیب، 4 / 238، الرقم : 5509۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے اس پر فخر نہیں۔ حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور کوئی فخر نہیں، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ سارے لوگ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ میں ہی وہ ہوں جس سے سب سے پہلے زمین شق ہوگی اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگ تین بار گھبرانے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ ہمارے باپ ہیں اپنے رب سے ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ فرمائیں گے : مجھ سے لغزش واقع ہوئی جس کے باعث مجھے زمین پر اترنا پڑا تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو آپ فرمائیں گے : میں نے زمین پر ایک دعا مانگی جس کے باعث سارے لوگ ہلاک کردیئے گئے تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آپ فرمائیں گے میں نے تین مرتبہ (بظاہر) خلافِ واقعہ بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہوںنے ان تینوں باتوں سے دینِ الٰہی کو بچانے کے لئے حیلہ کیا، حضرت ابراہیم فرمائیں گے حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو آپ فرمائیں گے : میں نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : لوگوں نے اللہ عزوجل کے علاوہ مجھے بھی معبود بنا لیا تھا تم حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں جاؤ، آپ ﷺ فرماتے ہیں : پھر وہ میرے پاس آئیں گے تو میںان کے ساتھ چلوں گا۔ ابنِ جدعان (راویٔ حدیث) کہتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا گویا کہ میں اب بھی حضور ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں جنت کے دروازے کی زنجیر پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا، تو کہا جائے گا : کون؟ جواب دیا جائے گا : حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ چنانچہ وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے اور مجھے مرحبا کہیں گے، میں (اللہ عزوجل کے سامنے) سجدہ ریز ہوجاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا : سر اٹھائیے، مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی اور فرمائیے آپ کی بات مانی جائے گی۔ (آپ ﷺ نے فرمایا) یہی وہ مقامِ محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo}۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض راویوں نے بواسطہ ابو نضرہ، حضرت ابنِ عباس رضي اللہ عنھما سے اس حدیث کو مفصل روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قوْلِهِ تَعَالَی : {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : اَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ : الشَّفَاعَةُ۔ یُعَذِّبُ اللهُ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْإِيْمَانِ بِذُنُوْبِهِمْ ثُمَّ یُخْرِجُهُمْ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَیُوْتَی بِهِمْ نَهَرًا، یُقَالُ لَهُ : الْحَیَوَانُ۔ فَیَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ ثُمَّ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَیُسَمَّوْنَ الْجَھَنَّمِیُّوْنَ، ثُمَّ یَطْلُبُوْنَ مِنَ اللهِ تَعَالَی فَیُذْهِبُ عَنْهُمْ ذٰلِکَ الْاِسْمَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ۔

5 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 148۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo} کے بارے میں فرمایا : مقامِ محمود شفاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں میں سے ایک قوم کو ان کے گناہوں کے باعث عذاب دے گا، پھر محمد (ﷺ) کی شفاعت سے انہیں (جہنم) سے نکال کر ایسی نہر کے پاس لایا جائے گا جسے حیات آور کہا جاتا ہے۔ پس وہ اس میں غسل کریں گے اور پھر جنت میں داخل ہو جائیں گے، انہیں (جنت میں) جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے (اس نام کے خاتمہ کا) مطالبہ کریں گے تو وہ اس نام کو ان سے ختم کر دے گا۔‘‘

اسے امام اعظم ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : فِي قوْلِ تَعَالَی : {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : یُخْرِجُ اللهُ قَوْمًا مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ الْإِيْمَانِ وَالْقِبْلَةِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ۔ فَیُوْتَی بِهِمْ نَهَرًا، یُقَالُ لَهُ : الْحَیَوَانُ۔ فَیُلْقَوْنَ فِيْهِ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا یَنْبُتُ الثَّعَارِيْرُ، ثُمَّ یَخْرُجُوْنَ فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَیُسَمَّوْنَ الْجَھَنَّمِیُّوْنَ، وَیَطْلُبُوْنَ مِنَ اللهِ تَعَالَی أَنْ یُذْهِبَ عَنْهُمْ ذٰلِکَ الْاِسْمَ فَیُذْهِبَهُ عَنْهُمْ۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ۔

6 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 152۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ کے فرمان {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo} کے بارے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور اہلِ قبلہ میں سے ایک قوم کو محمد ﷺ کی شفاعت سے جہنم سے نکالے گا، یہی مقامِ محمود ہے۔ پس انہیں ایسی نہر کے پاس لایا جائے گا جسے حیات آور کہا جاتا ہے۔ پھر انہیں اس میں ڈال دیا جائے گا تو وہ اس میں ایسے اُگیں گے جیسے سفید ککڑیاں اُگتی ہیں، بعد ازاں وہ (اس نہر سے نکل کر) جنت میں داخل ہو جائیں گے تو انہیں (اس میں) جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے (اس نام کے خاتمے کا) مطالبہ کریں گے تو وہ اس نام کو ان سے ختم کر دے گا۔‘‘

اسے امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔

7۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ : الشَّفَاعَةُ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 478، الرقم : 10200، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 281، الرقم : 299، وأبو نعیم الأصبھانی في حلیۃ الأولیاء، 8 / 372۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مقامِ محمود (حضور نبی اکرم ﷺ کا ) شفاعت (فرمانا) ہے۔‘‘ اِسے امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

8۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : وَھُوَ الْمَقَامُ الَّذِي أَشْفَعُ لِأُمَّتِي فِيْهِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 441، الرقم : 9684، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 59، والمبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 8 / 454۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo} کے بارے فرمایا : یہ وہ مقام ہے جس میں، میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا۔‘‘ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : حَدَّثَنِي نَبِيُّ اللهِ ﷺ : إِنِّي لَقَائِمٌ أَنْتَظِرُ أُمَّتِي تَعْبُرُ عَلَی الصِّرَاطِ، إِذْ جَائَنِي عِيْسَی، فَقَالَ : ھَذِهِ الْأَنْبِیَائُ قَدْ جَائَتْکَ؟ یَا مُحَمَّدُ، یَسْأَلُوْنَ۔ أَوْ قَالَ : یَجْتَمِعُوْنَ إِلَيْکَ۔ وَیَدْعُوْنَ اللهَ عزوجل أَنْ یُفَرِّقَ جَمْعَ الْأُمَمِ إِلَی حَيْثُ یَشَاء اللهُ لَھُمْ لِغمِّ مَا ھُمْ فِيْهِ، وَالْخَلْقُ مُلْجَمُوْنَ فِي الْعَرَقِ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَھُوَ عَلَيْهِ کَالزَّکْمَةِ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَیَتَغَشَّاهُ الْمَوْتُ۔ قَالَ : قَالَ لِعِيْسَی : إِنْتَظِرْ حَتَّی أَرْجِعَ إِلَيْکَ۔ قَالَ : فَذَھَبَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ حَتَّی قَامَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَلَقِيَ مَا لَمْ یَلْقَ مَلَکٌ مُصْطَفًی وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ۔ فَأَوْحَی اللهُ إِلَی جِبْرِيْلَ : إِذْھَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ، فَقُلْ لَهُ : إِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔ قَالَ : فَشُفِّعْتُ فِي أُمَّتِي أَنْ أُخْرِجَ مِنْ کُلِّ تِسْعَةٍ وَتِسْعِيْنَ إِنْسَانًا وَّاحِدًا۔ قَالَ : فَمَا زِلْتُ أَتَرَدَّدُ عَلَی رَبِّي عزوجل، فَلاَ أَقُوْمُ مَقَامًا إِلَّا شُفِّعْتُ، حَتَّی أَعْطَانِيَ اللهُ مِنْ ذَالِکَ أَنْ قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِکَ مِنْ خَلْقِ اللهِ مَنْ شَھِدَ أَنَّهُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ یَوْمًا وَاحِدًا مُخْلِصًا وَمَاتَ عَلَی ذَالِکَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔

9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 12824، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 7 / 249، الرقم : 2695، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 235، الرقم : 5503، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 373۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں پل صراط پر کھڑا اپنی امت کے اسے عبور کرنے کا انتظار کر رہا ہوں گا کہ اس اثناء میرے پاس عیسیٰ علیہ السلام تشریف لا کر کہیں گے : اے محمد ( ﷺ )! یہ انبیاء آپ کے پاس آئے ہیں یا آپ کے پاس اکٹھے ہو کر آئے ہیں (راوی کو شک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں کہ وہ تمام گروہوں کو اپنی منشاء کے مطابق الگ کر دے تاکہ انہیں پریشانی سے نجات مل جائے۔ اس دن ساری مخلوق پسینے میں ڈوبی ہوگی، مومن پر اس کا اثر ایسے ہو گا جیسے زکام (میں ہلکا پُھلکا پسینہ)اور جو کافر ہوگا اس پر جیسے موت وارد ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پس میں عیسیٰ سے کہوں گا : ذرا ٹھہرئیے جب تک کہ میں آپ کے پاس لوٹوں۔ راوی کہتے ہیں : حضور ﷺ تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ عرش کے نیچے کھڑے ہوں گے، پس آپ ﷺ کو وہ شرفِ باریابی حاصل ہو گا جو کسی برگزیدہ فرشتہ کو حاصل ہوا نہ کسی نبی مرسل کو۔ پھر اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو وحی فرمائے گا کہ محمد ﷺ کے پاس جا کر کہو : اپنا سر اٹھائیے، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : پس میری امت کے حق میں میری شفاعت قبول کی جائے گی کہ ہر 99 لوگوں میں سے ایک کو نکالتا جاؤں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں بار بار اپنے رب کے حضور جائوں گا اور جب بھی اس کے حضور کھڑا ہوں گا میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے شفاعت کا مکمل اختیار عطا کر کے فرمائے گا : محمد( ﷺ )! اپنی امت اور اللہ کی مخلوق میں سے ہر اس شخص کو بھی جنت میں داخل کر دیجیے جس نے ایک دن بھی اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی پر اس کو موت آئی ہو۔‘‘

اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے کہا ہے : اس حدیث کے اشخاص صحیح حدیث کے اشخاص ہیں۔

10۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : یُحْبَسُ الْمُؤْمِنُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیَھْتَمُّوْنَ لِذَلِکَ، فَیَقُوْلُوْنَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَی رَبِّنَا عزوجل فَیُرِيْحُنَا مِنْ مَکَانِنَا۔ فَیَأْتُوْنَ آدَمَ، فَیَقُوْلُوْنَ : أَنْتَ أَبُوْنَا، خَلَقَکَ اللهُ بِیَدِهِ وَأَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَهُ، وَعَلَّمَکَ أَسْمَاء کُلِّ شَيْئٍ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ۔ قَالَ : فَیَقُوْلُ : لَسْتُ ھُنَاکُمْ۔ وَیَذْکُرُ خَطِيْئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ أَکْلَهُ مِنَ الشَّجَرَةِ وَقَدْ نُھِيَ عَنْھَا، وَلَکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا أَوَّلَ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ إِلَی أَھْلِ الْأَرْضِ۔ قَالَ : فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا، فَیَقُوْلُ : لَسْتُ ھُنَاکُمْ۔ وَیَذْکُرُ خَطِيْئَتَهُ : سُؤَالَهُ اللهَ عزوجل بِغَيْرِ عِلْمٍ، وَلَکِنِ ائْتُوْا إِبْرَاھِيْمَ خَلِيْلَ الرَّحْمَنِ۔ فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاھِيْمَ، فَیَقُوْلُ : لَسْتُ ھُنَاکُمْ۔۔۔ وَلَکِنِ ائْتُوْا مُوْسَی عَبْدًا کَلَّمَهُ اللهُ تَکْلِيْمًا، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ۔ قَالَ : فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی، فَیَقُوْلُ : لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَیَذْکُرُ خَطِيْئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ قَتْلَهُ الرَّجُلَ۔ وَلَکِنِ ائْتُوْا عِيْسَی عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلَهُ وَکَلِمَةَ اللهِ وَرُوْحَهُ۔ فَیَأْتُوْنَ عِيْسَی، فَیَقُوْلُ : لَسْتُ ھُنَاکُمْ، وَلَکِنِ ائْتُوْا مُحَمَّدًا عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلَهُ۔

قَالَ : فَیَأْتُوْنِي، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي عزوجل فِي دَارِهِ، فَیُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَدَعَنِي، ثُمَّ یَقُوْلُ : إِرْفَعْ رَأْسَکَ یَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ تُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ۔ فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيْدٍ یُعَلِّمُنِيْهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجُهُمْ فَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ۔ وَسَمِعْتُهُ یَقُوْلُ : فَأُخْرِجُھُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ۔ قَالَ : ثُمَّ أَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي عَزَّوَجَلَّ الثَّانِیَةَ، فَیُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَدَعَنِي، ثُمَّ یَقُوْلُ : إِرْفَعْ رَأْسَکَ مُحَمَّدُ، وَقُلْ تُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ۔ فَأَرْفَعُ رَأْسِي، وَأَحْمَدُ رَبِّي بِثَنَاءٍ وَتَحْمِيْدٍ یُعَلِّمُنِيْهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجُهُمْ فَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ۔ قَالَ ھَمَّامٌ : وَأَيْضًا سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ : فَأُخْرِجُھُمْ مِنَ النَّارِ فَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ۔ قَالَ : ثُمَّ أَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي عزوجل الثَّالِثَةَ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَدَعَنِي، ثُمَّ یَقُوْلُ : اِرْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ تُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ۔ فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِثَنَاء وَتَحْمِيْدٍ یُعَلِّمُنِيْهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجُ فَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ۔ قَالَ ھَمَّامٌ وَسَمِعْتُهُ یَقُوْلُ : فَأُخْرِجُھُمْ مِنَ النَّارِ فَأُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ، فَـلَا یَبْقَی فِي النَّاِر إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ۔ أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُوْدُ۔

ثُمَّ تَـلَا قَتَادَةُ : {عَسٰٓی أَن يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : ھُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي وَعَدَ اللهُ عزوجل نَبِيَّهُ ﷺ ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔

10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 244، الرقم : 13562، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 374، الرقم : 804۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایمان والوں کو روک لیا جائے گا تو وہ اس سے غمگین ہو کر آپس میں کہیں گے : ہمیں اپنے پروردگار کے ہاں کوئی سفارشی چاہئے جو ہمیں اس سے راحت فراہم کرے۔ پس وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ ہمارے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے تخلیق فرمایا اور آپ کے لئے ملائکہ کو سجدہ کرایا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھلا دیئے تو آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں اور اپنے درخت سے کھانے کا ذکر کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، لیکن تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین کی طرف مبعوث فرمایا۔ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں اور بغیر علم کے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کی خطا کا ذکر کریں گے، بلکہ تم اللہ تعالی کے خلیل، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں۔۔۔ تم اس کے بندہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے اور ان کو تورات عطا کی ہے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس پر فائز نہیں اور ایک شخص کو قتل کرنے کی اپنی خطا کا ذکر کریں گے، لیکن تم عیسیٰں کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے، اس کے رسول، اللہ کے کلمے اور اس کی روح ہیں۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر نہیں، لیکن تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

’’آپ ﷺ نے فرمایا : وہ میرے پاس آئیں گے تو میں اپنے رب سے اس کے گھر میں داخلے کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا۔ پس رب کو دیکھتے ہی میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت پر رکھے گا پھر فرمائے گا : محمد ( ﷺ )! اپنا سر اٹھائیے، کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے کلمات سے حمد و ثنا کروں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو وہ میرے لئے حد مقرر فرمائے گا لهٰذا میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر دوسری بار میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا۔ پس اس کو دیکھتے ہی میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اس حال پر رکھے گا پھر فرمائے گا : محمد ( ﷺ )! اپنا سر اُٹھائیے! کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اپنے رب کی ان کلمات سے حمد وثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو وہ میرے لئے حد مقرر فرمائے گا پس میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔ پس اس کو دیکھتے ہی سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اس حال پر رکھے گا پھر فرمائے گا : محمد( ﷺ )! اپنا سر اٹھائیے ! کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اپنے رب کی ان کلمات سے حمد و ثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو وہ میرے لئے حد مقرر فرمائے گا پس میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ اب جہنم میں صرف وہ رہ جائے گا جسے قرآن نے روکا ہے یعنی جس نے ہمیشہ رہنا ہے۔

’’پھر حضرت قتادہ نے آیتِ مبارکہ تلاوت کی : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo} [بنی اسرائیل، 17 : 79] فرمایا : یہی وہ مقامِ محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے وعدہ کیا ہے۔‘‘ اسے امام احمد اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

11۔ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْیَمَانِ رضی الله عنه سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ : فِي قَوْلِهِ عزوجل {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بنی إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : یُجْمَعُ النَّاسُ فِي صَعِيْدٍ وَّاحِدٍ، یُسْمِعُھُمُ الدَّاعِي وَیَنْفُذُھُمُ الْبَصَرُ، حُفَاةً عُرَاةً کَمَا خُلِقُوْا، سَکُوْتًا لَا تَتَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ۔ قَالَ : فَیُنَادِي : مُحَمَّدُ، فَیَقُوْلُ : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، وَالْخَيْرُ فِي یَدَيْکَ، وَالشَّرُ لَيْسَ إِلَيْکَ، الْمَهْدِيُّ مَنْ هَدَيْتَ، وَعَبْدُکَ بَيْنَ یَدَيْکَ، وَلَکَ وَإِلَيْکَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَی مِنْکَ إِلَّا إِلَيْکَ، تَبَارَکْتَ وَتَعَالَيْتَ، سُبْحَانَ رَبِّ الْبَيْتِ۔ فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اللهُ : {عَسٰٓی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79]۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ۔

11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 395، الرقم : 3384، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 381، الرقم : 11295، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 139، الرقم : 34800، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 36، الرقم : 1062، والطیالسي في المسند، 1 / 55، الرقم : 414، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 377، وقال : رجاله رجال الصحیح۔

’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے فرمان {یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گاo} کے بارے فرماتے ہوئے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ روزِ آخرت لوگوں کو ایک ہموار میدان میں اکٹھا فرمائے گا، جہاں پکارنے والے کی آواز سب سنیں گے اور سب نظر آتے ہوں گے، لوگ اسی طرح عریاں ہوں گے جس طرح پیدا ہوئے تھے اور سب خاموش ہوں گے اِذنِ الٰہی کے بغیر کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہو گی۔ (اللہ رب العزت) آواز دے گا : محمد ( ﷺ )! آپ ﷺ فرمائیں گے : اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تیری اطاعت کے لئے مستعد ہوں، ساری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے، اور کسی شر کو تیرے آگے کوئی چارہ نہیں، جس کو تُو ہدایت سے نوازے وہی ہدایت یافتہ ہے، تیرا بندہ تیری بارگاہ میں حاضر ہے، میں تیرے ہی لئے ہوں اور میری دوڑ تیری ہی جانب ہے، تیری بارگاہ کے سوا کوئی پناہ گاہ اور جائے نجات نہیں۔ تیری ذاتِ بابرکات بلند اور پاک ہے، اے بیت اللہ کے رب۔ پس یہی مقامِ محمود ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo}۔‘‘

اسے امام حاکم، نسائی، ابنِ ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : شیخین کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

12۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : تُمَدُّ الْأَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَدًّا لِعَظَمَةِ الرَّحْمٰنِ ثُمَّ لَا یَکُوْنُ لِبَشَرٍ مِنْ بَنِي آدَمَ إِلاَّ مَوْضِعُ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أُدْعَی أَوْلیَ النَّاسِ، فَأَخِرُّ سَاجِدًا ثُمَّ یُؤْذَنُ لِي فَأَقُوْمُ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، أَخْبَرَنِي هَذَا لَجِبْرِيْلُ وَهُوَ عَنْ یَمِيْنِ الرَّحْمَنِ۔ وَاللهِ! مَا رَآهُ جِبْرِيْلَ قَبْلَھَا قَطُّ، إِنَّکَ أَرْسَلْتَهُ إِلَيَّ؟ قَالَ : وَجِبْرِيْلُ سَاکِتٌ لَا یَتَکَلَّمُ حَتَّی یَقُوْلَ اللهُ : صَدَقَ۔ ثُمَّ یُؤْذَنُ لِي فِي الشَّفَاعَةِ، فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، عِبَادُکَ عَبَدُوْکَ فِي أَطْرَافِ الْأَرْضِ فَذَالِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ۔

12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 : 614، الرقم : 8701، والحارث في المسند، 2 / 1008، الرقم : 1131، وابن المبارک في الزھد، 1 / 111، الرقم : 375، وأبو نعیم الأصبھاني في حلیۃ الأولیاء، 3 / 145۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز سطحِ زمین کو عظمتِ رحمن کے سبب اتنا کم کر دیا جائے گا کہ کسی بھی بشر کے لئے فقط اپنا پاؤں رکھنے کے لئے جگہ ہو گی۔ پھر سب انسانوں سے پہلے مجھے بلایا جائے گا تو میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پھر مجھے اذنِ کلام دیا جائے گا تو میں کھڑا ہو کر عرض کروں گا : اے میرے رب! یہ ہے وہ جبرئیل جس نے مجھے خبر دی، اور وہ اللہ کے دائیں طرف ہوں گے، اللہ کی قسم! میں نے جبریل کو ایسی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا، تُو نے اس کو میری طرف بھیجا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جبرئیل خاموش کھڑے ہوں گے، کچھ کلام نہیں کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس نے سچ کہا، پھر مجھے اذنِ شفاعت دیا جائے گا تو میں عرض کروں گا : اے میرے رب! تیرے بندے زمین میں ہر جگہ تیری عبادت کرتے تھے یہی وہ مقام (جہاں کھڑا ہوکر میں شفاعت کروں گا) مقامِ محمود ہوگا۔‘‘

اسے امام حاکم نے روایت کیا اور کہا ہے : شیخین کی شرط پر اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

13۔ عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ : تُعْطَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَرَّ عَشَرَ سِنِيْنَ، ثُمَّ تُدْنَی مِنْ جَمَاجِمِ النَّاسِ، فَذَکَرَ الْحَدِيْثَ، قَالَ : فَیَأْتُوْنَ النَّبِيَّ ﷺ فَیَقُوْلُوْنَ : یَا نَبِيَّ اللهِ، أَنْتَ الَّذِي فَتَحَ اللهُ بِکَ، وَغَفَرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ۔ وَقَدْ تَرَی مَا نَحْنُ فِيْهِ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّنَا۔ فَیَقُوْلُ : أَنَا صَاحِبُکُمْ! فَیَخْرُجُ یَحُوْشُ النَّاسَ حَتَّی یَنْتَھِيَ إِلَی بَابِ الْجَنَّةِ، فَیَأْخُذُ بِحَلْقَةٍ فِي الْبَابِ مِنْ ذَهَبٍ، فَیَقْرَعُ الْبَابَ، فَیُقَالُ : مَنْ هَذَا؟ فَیُقَالُ : مُحَمَّدٌ! فَیُفْتَحُ لَهُ، فَیَجِيْئُ حَتَّی یَقُوْمَ بَيْنَ یَدَيِ اللهِ، فَیَسْجُدُ۔ فَیُنَادِي : إِرْفَعْ رَأْسَکَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔ وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔

13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 247، الرقم : 6117، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 308، الرقم : 31675، وابن أبی عاصم في السنۃ، 2 / 383، الرقم : 813، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 235، الرقم : 5502، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 372۔

’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن سورج دس سال کی مسافت سے گرم ہوگا، پھر (آہستہ آہستہ) وہ لوگوں کے گروہوں سے قریب ہو جائے گا، (انہوں نے پوری حدیث ذکر کی پھر) فرماتے ہیں : لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے اللہ کے نبی! آپ ہی وہ ذات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے معاملۂ تخلیق اور نبوت کا آغاز فرمایا اورآپ کی خاطر آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے۔ آپ ہماری حالت مشاہدہ فرما رہے ہیں لهٰذا آپ ہی اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں، آپ ﷺ فرمائیں گے : میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ آپ ﷺ لوگوں کو جمع کرتے ہوئے جنت کے دروازے تک پہنچ جائیں گے، پس آپ ﷺ سونے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹائیں گے تو پوچھا جائے گا : کون ہے؟ فرمایا جائے گا : محمد( ﷺ )! اسے کھول دیا جائے گا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ وہ فرمائے گا : اپنا سر اٹھائیے، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، پس یہی مقامِ محمود ہے۔‘‘

اسے امام طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے کہا ہے : اس کی اِسناد صحیح ہے۔

14۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : {عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} [بنی إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : یُجْلِسُنِي مَعَهُ عَلَی السَّرِيْرِ۔

14 : أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 58، الرقم : 4159، والسیوطي في الدر المنثور في التفسیر بالمأثور، 5 / 287۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا} پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ رب العزت مجھے اپنے ساتھ پلنگ (خصوصی نشست) پر بٹھائے گا۔‘‘

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ یَصِيْرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَّھَا یَقُوْلُوْنَ : یَا فُـلَانُ، اِشْفَعْ، یَا فُـلَانُ، اِشْفَعْ، حَتَّی تَنْتَھِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَذَالِکَ یَوْمَ یَبْعَثُهُ اللهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب قوله : عسی أن یبعثک ربک مقاماً محموداً، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 381، الرقم : 11295، وابن منده في الإیمان، 2 / 871، الرقم : 927، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 309، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 56۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : قیامت کے روز لوگ گروہ در گروہ اپنے اپنے نبی کے پیچھے چلیں گے اور عرض کریں گے : اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے، اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے حتی کہ طلبِ شفاعت کا سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ پر آکر ختم ہو جائے گا۔ یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِ اللهِ عزوجل : {عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : یُجْلِسُهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ جِبْرِيْلَ علیه السلام، وَیَشْفَعُ لِأُمَّتِهِ۔ فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ۔

2 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 61، رقم : 12474، والسیوطي في الدر المنثور في التفسیر بالمأثور، 5 / 287۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا} کے بارے میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو اپنے اور حضرت جبریل علیہ السلام کے درمیان بٹھائے گا اور آپ ﷺ اپنی اُمت کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہی حضور نبی اکرم ﷺ کا مقامِ محمود ہوگا۔‘‘

3۔ قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ رَحِمَهُ الله : قَالَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَلِکَ هُوَ الْمَقَامُ الَّذِي یَقُوْمُهُ ﷺ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لِلشَّفَاعَةِ لِلنَّاسِ لِیُرِيْحَهُمْ رَبُّهُمْ مِنْ عَظِيْمِ مَا هُمْ فِيْهِ مِنْ شِدَّةِ ذَلِکَ الْیَوْمِ۔

3 : أخرجه الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15 / 143۔

’’امام ابن جریر طبری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم بیان کرتے ہیں کہ اس مقام سے مراد وہ مقام ہے جس پر حضور نبی اکرم ﷺ روزِ قیامت لوگوں کی شفاعت کے لئے فائز ہوں گے تاکہ انہیں ان کا رب اس عظیم آزمائش و مصیبت سے نجات دلائے جس میں وہ اس دن مبتلاہوں گے۔‘‘

4۔ عَنْ مُجَاھِدٍ فِي قَوْلِهِ : {عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [بني إسرائیل، 17 : 79] قَالَ : یُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَی عَرْشِهِ۔

4 : أخرجه الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15 / 98، والسیوطي في الدر المنثور في التفسیر بالمأثور، 5 / 287، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 11 / 426

’’حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان - {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا} - کے بارے میں فرماتے ہیں : اللہ رب العزت آپ کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘

5۔ قال عبد الله ابن السلام : إنّ محمدا یوم القیامۃ علی کرسيّ الربّ بین یدي الرّبّ تبارک وتعالٰی۔

5 : أخرجه الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15 / 148، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 11 / 480، والعیني في عمدۃ القاري، 23 / 123۔

’’حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : بے شک حضرت محمد ﷺ روزِ قیامت اللہ رب العزت کے بالکل سامنے، باری تعالیٰ کی رکھوائی گئی کرسی پر تشریف فرما ہوں گے۔‘‘

6۔ قال ابن کثیر في تفسیر ھذه الآیۃ {وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّکَ} [بني إسرائیل، 17 : 79] : اِفعل ھذا الّذي أمرتک به، لنقیمک یوم القیامۃ مقامًا یحمدک فیه الخلائق کلّھم وخالقھم تبارک وتعالی۔

6 : ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 5 / 103۔

’’علامہ ابن کثیر اس آیت {وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّکَ} کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : اے محبوب! آپ یہ عمل (نمازِ تہجد) ادا کیجیے جس کا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے تاکہ روزِ قیامت آپ کو اس مقام پر فائز کیا جائے جس پر تمام مخلوقات اور خود خالقِ کائنات بھی آپ کی حمد و ثناء بیان فرمائے گا۔‘‘

7۔ قال الإمام الخازن : المقام المحمود ھو مقام الشّفاعۃ لأنّه یحمده فیه الأوّلون والآخرون۔

7 : الإمام الخازن في لباب التأویل في معاني التنزیل، 3 / 142، 143۔

’’امام خازن فرماتے ہیں کہ مقام محمود ہی مقام شفاعت ہے کیونکہ اس مقام پر اوّلین و آخرین آپ ﷺ کی تعریف کریں گے۔‘‘

8۔ قال ابن الحجر العسقلاني : روی ابن أبي حاتم من طریق سعید بن أبي ھلال أنّه بلغه أنّ المقام المحمود الّذي ذکره الله أنّ النّبيّ ﷺ یکون یوم القیامۃ بین الجبار وبین جبریل فیغبطه بمقامه ذلک أھل الجمع۔

8 : أخرجه ابن الحجر العسقلاني في فتح الباري، 8 / 465۔

’’امام ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی حاتم نے حضرت سعید بن ابو ہلال کے طریق سے روایت کیا ہے کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ مقامِ محمود جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ روزِ قیامت حضور نبی اکرم ﷺ اللہ رب العزت اور حضرت جبریل علیہ السلام کے درمیان (عرش پر) جلوہ افروز ہوں گے۔ آپ ﷺ کے اس مقام و مرتبہ کو دیکھ کر جمیع مخلوق آپ ﷺ پر رشک کرے گی۔‘‘

9۔ قَالَ الشَّوْکَانِيُّ في قوله تعالی : {عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} [بني إسرائیل، 17 : 79] : القول الثالث : أن المقام المحمود ھو أن الله تعالٰی یجلس محمدا ﷺ معه علی کرسیّه، حکاه ابن جریر عن فرقۃ منهم مجاهد، وقد ورد في ذلک حدیث، وحکی النقاش عن أبي داود السجسْتَانيّ أنه قال : من أنکر هذا الحدیث فهو عندنا مُتَّهَمٌ، ما زال أهل العلم یتحدّثون بهذا الحدیث۔

9 : أخرجه الشوکاني في فتح القدیر، 3 / 252۔

’’علامہ شوکانی مقامِ محمود کے بارے میں تیسرا قول بیان کرتے ہیں : ’’مقامِ محمود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اس قول کو ابنِ جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے مفسرین کے ایک گروہ سے روایت کیا ہے جن میں حضرت مجاہد التابعی بھی شامل ہیں۔ اس باب میں حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ نقاش نے حضرت ابو داود کا قول بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’جس نے اس حدیث کا انکار کیا وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔‘‘ اہلِ علم کثرت سے اس حدیث کو روایت کرتے آئے ہیں۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved