Hidaya al-Umma ‘ala Minhaj al-Qur’an wa al-Sunna

فصل 7 :اہل بیت اور صحابہ سے محبت در اصل حضور ﷺ سے محبت اور ان سے بُغض حضور ﷺ سے بُغض ہونے کا بیان

فَصْلٌ فِي کَوْنِ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ وَالصَّحَابَةِ حُبَّ النَّبِيِّ ﷺ وَبُغْضِهِمْ بُغْضَ النَّبِيِّ ﷺ

{اہل بیت اور صحابہ سے محبت در اصل حضور ﷺ سے محبت، اور ان سے بُغض حضور ﷺ سے بُغض ہونے کا بیان }

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo

(المائدۃ، 5 : 119)

’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہےo‘‘

2۔ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo

(التوبۃ، 9 : 100)

’’اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےo‘‘

3۔ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللهَ عَلَيْهِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَهٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًاo

(الأحزاب، 33 : 23)

’’مومنوں میں سے (بہت سے) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا، پس ان میں سے کوئی (تو شہادت پا کر) اپنی نذر پوری کر چکا ہے اور ان میں سے کوئی (اپنی باری کا) انتظار کر رہا ہے، مگر انہوں نے (اپنے عہد میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کیo‘‘

4۔ اِنَّمَا یُرِيْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًاo وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِيْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللهِ وَالْحِکْمَةِ ط اِنَّ اللهَ کَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًاo

(الأحزاب، 33 : 33۔34)

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول ﷺ کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو، بے شک اللہ (اپنے اولیاء کے لیے) صاحبِ لُطف (اور ساری مخلوق کے لیے) خبردار ہےo‘‘

5۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ط وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا۔

(الفتح، 48 : 29)

’’محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ( ﷺ ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔‘‘

6۔ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ط اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللهِ ط اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(المجادلۃ، 58 : 22)

’’اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اللہ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اللہ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہےo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها : خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رضي الله عنها فَأَدْخَلَھَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : {إِنَّمَا یُرِيْدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَيْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا}۔ [الأحزاب، 33 : 33]۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ۔

1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل أھل بیت النبي ﷺ ، 4 / 1883، الرقم : 2424، وابن أبی شیبۃ في المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 2 / 672، الرقم : 1149، وابن راهویه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271، والحاکم في المستدرک، 3 / 169، الرقم : 4707، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 149، والطبري في جامع البیان، 22 / 6، 7۔

’’حضرت صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآنحالیکہ آپ ﷺ نے ایک چادر مبارک اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقوش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا آئیں اور آپ ﷺ نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اہلِ بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ ]الأحزاب، 33 : 33[۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا۔ بِمَاء یُدْعَی خُمًّا۔ بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ۔ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ : أَ لَا أَیُّھَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوْشِکُ أَنْ یَأْتِيَ رَسُوْلُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُھُمَا : کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْھُدَی وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ۔ فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَھْلُ بَيْتِي۔ أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَھْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَھْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَھْلِ بَيْتِي۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : من فضائل علی بن أبي طالب رضی الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحیح، 1 / 145، الرقم : 123، والبیھقي في السنن الکبری، 2 / 148، الرقم : 2679، واللالکائي في اعتقاد أھل السنۃ، 1 / 79، الرقم : 88۔

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک انسان ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتۂ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ نے کتاب اللہ تعالیٰ (کی تعلیمات پر عمل کرنے پر) ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں (کہ کہیں تم بھول کر بھی ان کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کربیٹھنا)۔‘‘ اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ سَعْدٍ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ھَذِهِ الْآیَةُ : {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَ نَا وَأَبْنَآءَ کُم}، [آل عمران، 3 : 61]، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلِیًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ : اَللَّھُمَّ، ھَؤُلَاء أَھْلِي۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : من فضائل علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب، باب : 21، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 107، الرقم : 8399، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719، والبیھقي في السنن الکبری، 7 / 63، الرقم : 13169۔13170۔

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘ ]آل عمران، 3 : 61[ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔‘‘

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

4۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَخَذَ بِیَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ علیھما السلام، فَقَالَ : مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ ھَذَيْنِ وَأَبَاھُمَا وَأُمَّھُمَا کَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علی بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 641، الرقم : 3733، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الرقم : 576، وفی فضائل الصحابۃ، 2 / 693، الرقم : 1185، والطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 50، الرقم : 2654۔

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی درجہ میں ہو گا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

5۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رضی الله عنهم : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل فاطمۃ بنت محمد ﷺ ، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : في فضل الحسن والحسین،1 / 52، الرقم : 145، وابن أبی شیبۃ في المصنف، 6 / 378، الرقم : 32181، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 442، وابن حبان في الصحیح، 15 / 434، الرقم : 6977، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714۔

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَحِبُّوْا اللهَ لِمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ عزوجل۔ وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ۔

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل بیت النبي ﷺ ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 366، الرقم : 408، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 4 / 159۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔

7 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : فضل الحسن والحسین، 1 / 51، الرقم : 143، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 49، الرقم : 8168، وأحمد بن حنبل في المسند،2 / 288، الرقم : 7863، وأبو یعلی في المسند، 11 / 78، الرقم : 6215، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 102، الرقم : 4795۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

8۔ عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ابْنَايَ، مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

8 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 181، الرقم : 4776۔

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ عزوجل نے محبت کی اور جس سے اللہ عزوجل نے محبت کی اللہ عزوجل نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس پر اللہ عزوجل کا غضب ہوا اور جس پر اللہ عزوجل کا غضب ہوا اللہ عزوجل نے اُسے آگ میں داخل کر دیا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

9۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ وَنَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأَنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأَجَبْتُ۔ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُھُمَا أَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اللهِ تَعَالَی، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِي فِيْھِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ۔ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل مَوْلَايَ وَأَنَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ۔ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَھَذَا وَلِیُّهُ، اَللَّھُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ۔

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

9 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5 / 45،130، الرقم : 8148،8464، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 15، والحاکم في المستدرک، 3 / 109، الرقم : 4576، والطبراني في المعجم الکبیر، 5 / 166، الرقم : 4969۔

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ ﷺ نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ یقینا میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔ پھر فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو بھی دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

10۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَی النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَھُمْ یَتَحَدَّثُوْنَ فَیَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَھُمْ، فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَحَدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَھْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَھُمْ وَاللهِ، لاَ یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّی یُحِبَّھُمْ ِللهِ وَلِقَرَابَتِھِمْ مِنِّي۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ۔

10 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضی الله عنھما، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 8 / 382، الرقم : 472، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350، والسیوطي في شرحه علی سنن ابن ماجه، 1 / 13، الرقم : 140۔

’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہلِ بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک میرے اہلِ بیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

11۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أُوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي بِوِلَایَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ : مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَمَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّی اللهَ عزوجل، وَمَنْ أَحَبَّهُ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي فَقَدْ أَحَبَّ اللهَ عزوجل، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَقَدْ أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللهَ عزوجل۔

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْھِنْدِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔

11 : أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 429، الرقم : 1751، وابن عساکر في تاریخ دمشق الکبیر، 45 : 181،182، والهندی في کنز العمال، 11 / 611، الرقم : 32958، والهیثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108،109 وقال : رواه الطبراني بإسنادین۔

’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ تعالیٰ کو ولی جانا، اور جس نے علی (ص) سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ تعالیٰ سے بغض رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی، متقی ہندی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

12۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : نَظَرَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَيَّ فَقَالَ : یَا عَلِيُّ، أَنْتَ سَيِّدٌ فِي الدُّنْیَا سَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ، حَبِيْبُکَ حَبِيْبِي، وَحَبِيْبِي، حَبِيْبُ اللهِ۔ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّي، وَعَدُوِّي، عَدُوُّ اللهِ، وَالْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِي۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : صَحِيْحٌ۔

12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الرقم : 4640، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 325، الرقم : 8325، والذهبي في سیر أعلام البنلائ، 9 / 575۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی) روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے میری (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی) طرف دیکھ کر فرمایا : اے علی! تو دنیا میں بھی سردار ہے اور آخرت میں بھی سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کے لئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

13۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ھَذِهِ الْآیَةُ : {قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَی} [الشوری، 42 : 23]، قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ ھَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُھُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاھُمَا۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 47، الرقم : 2641، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 2 / 699، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : ’’فرما دیجئے : میں اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

14۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی رضی الله عنه عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ، وَأَھْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَھْلِهِ، وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ، وَذَاتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ۔

14 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 7 / 75، الرقم : 6416، وفی المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبیھقي في شعب الإیمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والھیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88۔

’’حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہلِ خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘

اسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

15۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي۔ فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَاحَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

15 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : قول النبي ﷺ لو کنت متخذًا خلیلاً، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : 59، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبوداود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في النھی عن سبّ أصحاب رسول الله ﷺ ، 4 / 214، الرقم : 4658۔

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

اسے امام بخاری، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

16۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اللهَ، وَمَنْ آذَی اللهَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَأْخُذَهُ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

16 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فیمن سبّ أصحاب النبي ﷺ ، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 54، 57، الرقم : 20549۔20578، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 191، الرقم : 1511، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 479، الرقم : 992، والرویاني في المسند 2 / 92، الرقم : 882، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 146، الرقم : 525، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 568، الرقم : 2284۔

’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور میرے بعد انہیں اپنی گفتگو کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی، جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت ہوئی۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

17۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ اللهِ عَلَی شَرِّکُمْ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔

17 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في فضل من رَأی النَّبِيَّ ﷺ وَصَحِبَهُ، 5 / 697، الرقم : 3866، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 191، الرقم : 8366، وأحمد بن حبنل في فضائل الصحابۃ، 1 / 397، الرقم : 606، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 263، الرقم : 1022، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 13 / 195۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو : تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔

18۔ عَنْ عَطَاءٍ یَعْنِي ابْنَ أَبِي رِبَاحٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ حَفِظَنِي فِي أَصْحَابِي کُنْتُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَافِظًا وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ واللَّفْظُ لَهُ۔

18 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32419، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 54، الرقم : 10، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 54، الرقم : 10، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 44 / 222، والمناوي في فیض القدیر، 3 / 370۔

’’حضرت عطا بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کا میری وجہ سے دفاع کیا اور عزت کی تو قیامت کے دن میں اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

19۔ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : احْفَظُوْنِي فِي أَصْحَابِي، فَإِنَّھُمْ خِیَارُ أُمَّتِي۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْقُضَاعِيُّ۔

19 : أخرجه أبونعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 311، والیبهقي في شعب الإیمان، 2 / 190، الرقم : 1507، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 418، الرقم : 720۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ نُسَيْرِ بْنِ ذَعْلُوْقٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنھما یَقُوْلُ : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ فَلَمَقَامُ أَحَدِھِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحِدِھِمْ عُمْرِهِ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

1 : أخرجه ابن ماجه في السنن، باب : فضل أھل بدر، 1 / 57، الرقم : 162، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32415، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 484، الرقم : 1006۔

’’حضرت نسیربن ذعلوق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اصحابِ رسول ﷺ کو برا مت کہو پس ان کے عمل کا ایک لمحہ(جو انہوں نے حالت ایمان میں محبت مصطفی میں گزارا ہے) تمہاری زندگی کے تمام اعمال سے بہتر ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْھَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنهم، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَعَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ۔ قَالَ أَبُو الصَّلْتِ : لَوْ قُرِءَ ھَذَا الإِسْنَادُ عَلَی مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

2 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : في الإیمان، 1 / 25، الرقم : 65، والطبراني في العمجم الأوسط، 6 / 226، الرقم : 6254، 8 / 262، الرقم : 8580، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 47، الرقم : 16، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 742۔

’’امام عبد السلام بن ابی صالح ابو صلت ہروی، امام علی بن موسیٰ رضا سے وہ اپنے والد (امام موسیٰ الرضا) سے وہ امام جعفر بن محمد سے وہ اپنے والد (امام محمد) سے وہ امام علی بن حسین سے وہ اپنے والد (امام حسین ں) سے وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان (اسلام) پر عمل کرنے کا نام ہے۔ (امام ابن ماجہ کے شیخ) امام ابو صلت ہروی فرماتے ہیں : اگر اس حدیث مبارک کی یہ سند {عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہم} پڑھ کر کسی پاگل پر دم کی جائے تو وہ ضرور شفایاب ہو جائے گا۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ : قَامَ کَعْبٌ رضی الله عنه فَأَخَذَ بِحُجْزَةِ الْعَبَّاسِ رضی الله عنه، وَقَالَ : أَدَّخِرُهَا عِنْدَکَ لِلشَّفَاعَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ فَقَالَ الْعَبَّاسُ : وَلِي الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيٍّ یُسْلِمُ إِلَّا کَانَتْ لَهُ شَفَاعَةٌ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْنُعَيْمٍ۔

3 : أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 2 / 944، الرقم : 1824، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 6 / 42۔

’’حضرت عطیہ عوفی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا دامن پکڑا اور عرض کرنے لگے : میں آپ کے اس دامن کو قیامت کے دن اپنے لئے ذریعۂ شفاعت بناتا ہوں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میرے لئے شفاعت ہو گی؟ انہوں نے کہا : ہاں! حضورنبی اکرم ﷺ کے اہلِ بیت میں سے جس کسی نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسے حقِ شفاعت حاصل ہو گا۔‘‘ اسے امام احمد اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کو امام حاکم، بزار اور ابو نعیم نے روایت کیا اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

4۔ عَنْ قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنھما ھَلْ کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَضْحَکُوْنَ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَالإِيْمَانُ فِي قُلُوْبِھِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجِبَالِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ۔

4 : أخرجه أبونعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 311۔

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا اصحابِ رسول ﷺ مسکراتے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا : ہاں اور ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

5۔ قال القاضي عیاض رَحِمَهُ الله : من علامات محبۃ النبي ﷺ محبته لمن أحب النبي ﷺ ، ومن هو بسببه من أهلِ بیته وصحابته من المهاجرین والأنصار، وعداوۃ من عاداهم، وبغض من أبغضهم وسبهم، فمن أحب شیئاً أحب من یحبُّ۔

5 : القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 501۔

’’قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ہر اس فرد سے محبت کرے جس سے حضور ﷺ محبت کرتے ہوں، اور اسی تعلق کے سبب آپ ﷺ کے اہل بیت اور آپ ﷺ کے صحابہ مہاجرین و انصار سے محبت رکھتا ہے۔ اور جو ان سے عداوت رکھے اُن سے عداوت رکھے اور جو ان سے بغض و عناد رکھے ان سے بغض رکھے۔پس جو شخص جس سے محبت رکھے وہ اس کو بھی محبوب جانے جس سے اس کا محبوب محبت کرے۔‘‘

6۔ قال القاضي عیاض رَحِمَهُ الله : روي أن مالکاً رَحِمَهُ الله لمّا ضربه جعفر بن سلیمان، ونال منه ما نال، وحمل مَغشِیّاً علیه، دخل علیه الناس، فأفاق، فقال : أُشهدکم أني جعلت ضاربي في حِلّ۔ فسئل بعد ذلک، فقال : خفت أن أموت، فألقی النبي ﷺ ، فأستحي منه أن یدخل بعض آله بسببي النار۔ وقیل : إن المنصور أقاده من جعفر، فقال له : أعوذ بالله! والله، ما ارتفع منها سوطٌ عن جسمي إلا وقد جعلته في حلٍّ لقرابته من رسول الله ﷺ ۔

6 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 532۔

’’قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ جب جعفر بن سلیمان نے حضرت امام مالک رَحِمَهُ اللہ کو کوڑے مارے کیونکہ وہ امام پر بہت ناراض ہوا تھا۔ آپ کو بے ہوش وہاں سے اٹھا کر لایا گیا تھا۔جب آپ کو ہوش آیاتو لوگ (مزاج پرسی کے لیے) آئے۔ آپ نے ان سے فرمایا : میں نے اپنے مارنے والے(جعفر بن سلیمان) کو معاف کر دیا۔ کسی نے پوچھا : آپ کیوں معاف فرما رہے ہیں ؟ فرمایا : اس لئے کہ میں خوف کرتا ہوں کہ اگر مجھے موت آگئی اور اس وقت حضورنبی اکرم ﷺ سے ملاقات ہوئی تو مجھے شرمندگی ہو گی کہ میری مار کے سبب سے حضور کے کسی قرابتی کو جہنم میں ڈالا جائے۔ (یہ تھا اُن کا تعلق خاندان رسول کے ایک فرد کے ساتھ)۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ منصور نے امام مالک رَحِمَهُ اللہ کا بدلہ جعفر سے لینے کا ارادہ کیا تو امام مالک رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں، خدا کی قسم! اس کے کوڑوں میں سے جو کوڑا بھی میرے جسم سے ہٹتا تھا میں اسی وقت معاف کر دیتا تھا۔ اس لئے کہ اس کی رسول اللہ ﷺ سے قرابت ہے۔‘‘

7۔ قال مالک بن أنس رَحِمَهُ الله، وغیره : من أبغض الصحابۃ و سبهم فلیس له في فيء المسلمین حق۔

7 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 537۔

’’حضرت مالک ابن انس رَحِمَهُ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ جس نے صحابہ سے دشمنی کی اور انہیں گالیاں دیں تو اس کا کوئی حق مسلمانوں کے مال غنمیت میں نہیں ہے۔‘‘

8۔ قال عبد الله بن المبارک رَحِمَهُ الله : خصلتان من کانتا فیه نجا : الصدق، وحب أصحاب محمد ﷺ ۔

8 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 537۔

’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ دو خصلتیں ہوں گی وہ نجات پا جائے گا : ایک صدق (سچائی) دوسری حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ سے محبت۔‘‘

9۔ رکب زید بن ثابت مرۃ۔ فدنا ابن عباس لیأخذ برکابه۔ فقال : مه یا ابن عم رسول الله، فقال : هکذا أمرنا أن نفعل بکبرائنا۔ فقال : أرني یدک۔ فأخرجھا إلیه فقبّلھا۔ فقال : هکذا أمرنا نفعل بأھل بیت رسول الله ﷺ ۔

9 : أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 19 / 326 وابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 244۔

’’ایک دفعہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آگے بڑھ کر ان کی سواری کی رکاب تھام لی۔ آپ نے کہا : اے حضور نبی اکرم ﷺ کے چچا کے بیٹے! رک جائیے ایسا نہ کیجئے۔ تو انہوں نے فرمایا : ہمیں اس طرح ہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے بڑوں کے ساتھ یونہی ادب سے پیش آئیں۔ پس حضرت زید نے فرمایا : مجھے اپنا ہاتھ دکھائیے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ باہر آپ کی طرف نکالا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ چوم لیا اور کہا : ہمیں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اہل بیت رسول ﷺ کا یوں احترام کریں ۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved