Hidaya al-Umma ‘ala Minhaj al-Qur’an wa al-Sunna

فصل 8 :نماز چھوڑنے اور اس میں سستی کرنے کی مذمت

فَصْلٌ فِي ذَمِّ تَرْکِ الصَّلَاةِ وَالتَّأْخِيْرِ فِيْهَا

{نماز چھوڑنے اور اس میں سستی کرنے کی مذمت}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo

(النساء، 4 : 103)

’’پھر (اے مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پا لو تو نماز کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘

2۔ اِنَّ الْمُنٰـفِقِيْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ج وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی لا یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ اِلاَّ قَلِیلاًo

(النساء، 4 : 142)

’’بے شک منافق (بزعمِ خویش) اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انہیں (اپنے ہی) دھوکے کی سزا دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑاo‘‘

3۔ وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰـتُهُمْ اِلَّآ اَنَّهُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَبِرَسُوْلِهٖ وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ کُسَالٰی وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ کٰرِهُوْنَo

(التوبۃ، 9 : 54)

’’اور ان سے ان کے نفقات (یعنی صدقات) کے قبول کیے جانے میں کوئی (اور) چیز انہیں مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے منکر ہیں اور وہ نماز کی ادائیگی کے لیے نہیں آتے مگر کاہلی و بے رغبتی کے ساتھ اور وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ (بھی) نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ ناخوش ہوتے ہیںo‘‘

4۔ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَآءِ الزَّکٰوةِ لا یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُo

(النور، 24 : 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گیo‘‘

5۔ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo

(الروم، 30 : 31)

’’اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤo‘‘

6۔ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِيْنَ ھُمْ یُرَآءُوْنَo

(الماعون، 107 : 4۔ 6)

ــــ’’پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیےo جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَيْسَ صَلَاةٌ أَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِيْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِيْهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِيْمَ ثُمَّ آمُرَ رَجُـلًا یَؤُمُّ النَّاسَ ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ فَأُحَرِّقَ عَلَی مَنْ لَا یَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاةِ بَعْدُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجماعۃ والإمامۃ، باب : فضل العشاء في جماعۃ، 1 / 206، الرقم : 626، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1 / 292، الرقم : 3352، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 141، الرقم : 21310، والدارمي في السنن، 1 / 326، الرقم : 1273۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : منافقوں پر فجر اور عشاء کی نمازوں سے بھاری اور کوئی نماز نہیں ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان میں کیا ہے تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے بھی حاضر ہوتے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اذان کا حکم دوں اور اقامت کہی جائے۔ پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے۔ پھر آگ کے شعلے لے کر انہیں جلا دوں جو نماز کے لیے ابھی تک نہیں نکلے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَيْفَ أَنْتَ إِذَا کَانَتْ عَلَيْکَ أُمَرَاءُ یُؤَخِّرُوْنَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا أَوْ یُمِيْتُوْنَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟ قَالَ : قُلْتُ : فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ : صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَکْتَهَا مَعَهُمْ فَصَلِّ فَإِنَّهَا لَکَ نَافِلَةٌ وَلَمْ یَذْکُرْ خَلَفٌ عَنْ وَقْتِهَا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَبُوْ دَاوُدَ، وَابْنُ مَاجَه۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : کراهیۃ التأخیر الصلاۃ عن وقتها المختار وما یفعله المأموم إذا أخرها الإمام، 1 / 448، الرقم : 648، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : إذا أخرها الإمام الصلاۃ عن وقتها، 1 / 117، الرقم : 431، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في إذا أخروا الصلاۃ عن وقتها، 1 / 298، الرقم : 1256، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 168، الرقم : 21516۔

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا : جب تم پر ایسے حاکم مسلط ہو جائیں جو نماز کو (مستحب) وقت سے مؤخر کر کے پڑھیں یا فرمایا : نماز کے (مستحب) وقت کو ختم کر کے پڑھیں تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا : جو آپ ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کرو پھر اگر ان کے ساتھ نماز پائو تو(اُن حاکموں کے فتنہ سے بچنے کے لیے) وہ بھی پڑھ لینا کیونکہ وہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔ اور خلف راوی نے ’’عن وقتھا‘‘ کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : سَیَکُوْنُ أُمَرَاءُ تَشْغَلُهُمْ أَشْیَاءُ یُؤَخِّرُوْنَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا فَاجْعَلُوْا صَلَاتَکُمْ مَعَهُمْ تَطَوُّعًا۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَحْمَدُ۔

3 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في إذا أخروا الصلاۃ عن وقتها، 1 / 298، الرقم : 1257، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 380، الرقم : 3786، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 314، الرقم : 22733۔

’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (ایک زمانے میں) میری امت کے حکام ایسے لوگ ہوں گے جو دنیاوی امور کی وجہ سے نماز تاخیر سے پڑھا کریں گے۔ تم اپنی نمازوں کو ان کے ساتھ نفل کے طور پر پڑھ لیا کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، عبدالرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَضَرَبَ فَخِذِي : کَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيْتَ فِي قَوْمٍ یُؤَخِّرُوْنَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟ قَالَ : مَا تَأْمُرُ؟ قَالَ : صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِکَ، فَإِنْ أُقِيْمَتِ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ۔

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَحْمَدُ۔

4 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الإمامۃ، باب : إعادۃ الصلاۃ بعد ذهاب وقتها مع الجماعۃ، 3 / 113، الرقم : 859، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 380، الرقم : 3785، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 154، الرقم : 7591، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 168، الرقم : 21516، والبزار في المسند، 9 / 374، الرقم : 3954۔

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا : تم جب ایسے لوگوں میں رہ جاؤگے جو نماز میں مقررہ وقت سے دیر کریں گے تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا : آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز پڑھ لو، پھر اپنے کاموں پر جاؤ، اگر تم مسجد میں ہو اور تمہاری موجودگی میں جماعت کھڑی ہو تو شریک ہو جاؤ۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی، عبد الرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ جَابِرٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاةِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالتِّرْمِذِيُّ۔

5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : بیان إطلاق اسم الکفر علی ترک الصلاۃ، 1 / 88، الرقم : 82، والترمذي في السنن، کتاب : الإیمان، باب : ما جاء في ترک الصلاۃ، 5 / 13، الرقم : 2618، وأبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في رد الإرجائ، 4 / 219، الرقم : 4678۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان اور کفر اور شرک میں نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمًا الصُّبْحَ فَقَالَ : أَشَاهِدٌ فُـلَانٌ؟ قَالُوْا : لَا، قَالَ : أَشَاھِدٌ فُلاَنٌ؟ قَالُوْا : لَا، قَالَ : إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَی الْمُنَافِقِيْنَ وَلَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا فِيْهِمَا لَأَتَيْتُمُوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الرُّکَبِ وَإِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَی مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِکَةِ وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فَضِيْلَتُهُ لَابْتَدَرْتُمُوْهُ وَإِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْکَی مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ وَصَلَاتُهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزکَی مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ وَمَا کَثُرَ فَھُوَ أَحَبُّ إِلَی اللهِ عزوجل۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ۔

6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في فضل صلاۃ الجماعۃ، 1 / 151، الرقم : 554، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 140، الرقم : 21276، وابن حبان في الصحیح، 5 / 405، الرقم : 2056، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 295، الرقم : 917، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 232، الرقم : 1834، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 61، الرقم : 4744۔

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : کیا فلاں شخص موجود ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا : کیا فلاں آدمی موجود ہے؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ ﷺ فرمانے لگے : یہ دو نمازیں (یعنی فجر اور عشائ) منافقوں کے لئے بہت مشکل ہیں۔ اگر تمہیں ان کے ثواب کا علم ہو جائے تو تم ان دونوں کے لیے ضرور آؤ اگرچہ تمہیں گھٹنوں کے بل ہی کیوں نہ آنا پڑے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے اور اگر تم اس کی فضیلت کو جان لو تو تم اس میں مقابلہ بازی سے کام لو۔ ایک شخص کی دوسرے شخص کے ساتھ نماز، اکیلے شخص کی نماز سے افضل ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ اسی طرح جتنی تعداد زیادہ ہو، اتنی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہوتی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، احمد، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : لَا إِسْلَامَ لِمَنْ لَمْ یُصَلِّ۔

1 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 6 / 157، والمروزی في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 897، الرقم : 930، 931۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص کا کوئی اسلام نہیں جو نمازی نہیں۔‘‘

2۔ قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه : مَنْ تَرَکَ صَلَاةً وَاحِدَةً مُتَعَمِّدًا، فَقَدْ بَرِیئَ مِنَ اللهِ وَبَرِیئَ اللهُ مِنْهُ۔

2 : أخرجه المروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 898، الرقم : 934۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس شخص نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہوا، اور اللہ تعالیٰ اس سے بری ہوا۔‘‘

3۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رحمه الله : کُلُّ شَيْئٍ یَذْهَبُ آخِرُهُ فَقَدْ ذَهَبَ جَمِیعُهُ، فَإِذَا ذَهَبَتْ صَلَاةُ الْمَرْءِ ذَهَبَ دِینُهُ۔

3 : أخرجه ابن القیم في الصلاۃ : 39۔

’’امام احمد رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کا آخری حصہ چلا گیا (ضائع ہو گیا) تو وہ ساری کی ساری ضائع ہو گئی، پس جب انسان کی نماز جاتی رہی تو اس کا دین جاتا رہا۔‘‘

4۔ قَالَ الإِمَامُ أَبُو عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ رحمه الله : لَقَدْ شَدَّدَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْوَعِیدَ فِي تَرْکِهَا، وَوَکَّدَهُ عَلَی لِسَانِ نَبِيِّهِ ﷺ بِأَنْ یَخْرُجُ تَارِکُهَا مِنَ الإِيْمَانِ بِتَرْکِهَا، وَلَمْ تُجْعَلْ فَرِيْضَةٌ مِنْ أَعْمَالِ الْعِبَادِ عَلَامَةً بَيْنَ الْکُفْرِ وَالإِيْمَانِ إِلَّا الصَّلَاةُ۔

4 : أخرجه المروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 1 / 132، 133۔

’’امام ابو عبد اللہ مروزی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کو ترک کرنے میں سخت وعید دی ہے، اور اسے اپنے نبی مکرم ﷺ کی زبان مبارک پر موکد فرمایا کہ اس کا تارک اسے ترک کرنے کی وجہ سے ایمان سے نکل جاتا ہے (یعنی اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا)، اور بندوں کے اعمال میں سے نماز کے سوا کسی اور فریضہ کو کفر اور ایمان کے درمیان علامت نہیں بنایا۔‘‘

5۔ عَنْ مَعْقِلٍ الْخَثْعَمِيِّ، قَالَ : أَتَی عَلِیًّا رَجُلٌ وَهُوَ فِي الرَّحْبَةِ فَقَالَ : یَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، مَا تَرَی فِي امْرَأَةٍ لَا تُصَلِّي؟ قَالَ : مَنْ لَمْ یُصَلِّ فَهُوَ کَافِرٌ۔

5 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 171، الرقم : 30436، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 72، الرقم : 42، والذهبي في الکبائر، 1 / 20، والعدني في الإیمان، 1 / 171، الرقم : 63۔

’’حضرت معقل خثعمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی اس وقت آیا جب آپ رحبہ میں تھے، اور کہا : اے امیر المؤمنین!آپ کی اس عورت کے بارے میں کیا رائے ہے، جو نماز نہیں پڑھتی؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو نماز نہیں پڑھتا وہ کفر کرنے والا ہے۔‘‘

6۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِیقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ لَا یَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الإیمان، باب : ما جاء في ترک الصلاۃ، 5 / 14، الرقم : 2622، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 172، الرقم : 30446، والذهبي في الکبائر، 1 / 20۔

’’حضرت عبد اللہ بن شقیق عقیلی فرماتے ہیں، صحابہ کرام، نماز کے سوا کسی دوسرے عمل کے ترک کو کفر نہیں جانتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

7۔ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ رحمه الله : سَمِعْتُ إِسْحَاقَ رحمه الله یَقُولُ : کَانَ رَأْيُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ لَدُنِ النَّبِيِّ ﷺ : أَنَّ تَارِکَ الصَّلَاةِ عَمْدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ حَتَّی یَذْهَبَ وَقْتُهَا کَافِرٌ۔

7 : أخرجه ابن عبد البر في التمهید، 4 / 225، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 929، الرقم : 990، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 217، الرقم : 830۔

’’محمد بن نصیر مروزی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت اسحاق رَحِمَهُ اللہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ اہل علم کی حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ سے یہ رائے تھی کہ بغیر عذر کے عمداً نماز ترک کرنے والا یہاں تک کہ اس کا وقت جاتا رہے، کافر ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved